بعض عالم نما بیہودہ افراد نے اس قسم کی آیات سے یہ مطلب نکالا ہے کہ اللہ کو دوسرے جہان میں دیکھا جاسکتا ہے ۔ ان لوگوں نے یہاں لقائے الٰہی سے حسّی ملاقات مراد لی ہے ۔
لیکن واضح ہے کہ حسّی ملاقات کے لیے جسم ضروری ہے اور جسم کے لیے محدود ہونا، محتاج ہونا اور فنا پذیر ہونا ضروری ہے اور ہر عقلمند جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان صفات کا حامل نہیں ہوسکتا ۔
لہٰذا اس میں شک نہیں کہ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں ”ملاقات“ اور ”روٴیت“کی نسبت اللہ کی طرف دی گئی ہے وہاں ملاقات حسّی مرا دنہیں ہے بلکہ شہودِ باطنی مراد ہے یعنی قیامت میں انسان آثارِ خداوندی کو ہر زمانے بہتر طور پر دیکھ سکے گا، اسے دل کی آنکھ سے دیکھ سکے گا اور وہاں اللہ پر اس کا ایمان شہودی ہوگا ۔
یہی وجہ ہے کہ آیاتِ قرآن کے مطابق ہٹ دھرم ترین منکرین خدا قیامت میں اعتراف کرلیں گے کیونکہ انہیں انکار کی کوئی راہ سچائی نہ دے گی ۔(1)