مومنین انسانوں کو جلانے والی بھٹیوں کے سامنے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونه جلد 27
۱۔ اصحابِ اخدود کون لوگ تھے ؟اس سورہ کی فضیلت

ہمیں معلوم ہے کہ مکہ کے مسلمان ابتداء میں سخت فشار اور دباوٴ میں تھے اور دشمن ان کے لئے ہر قسم کی تکلیف کو جائز سمجھتے تھے اور جیساکہ ہم نے سورہ کے مضامین کی تشریح میں کہا ہے اس سورہ کے نزول کا مقصد ان ایذا پہنچا نے والے کفار کو خبر دار کرنا ہے کہ وہ ماضی کی اپنے سے مشابہت رکھنے والی اقوام کے لوگوں کی سر نوشت کو پیش نظر رکھیں ، اور ساتھ ہی یہ سورہ موجودہ مومنین کی تسلی ، دلداری اور تقویت ِ روحانی کا باعث اور تمام مسلمانوں کے لئے ایک درس بھی ہے ۔ پہلے فرماتا ہے :
” قسم ہے آسمان کی جس کے بہت سے بروج ہیں “ ۔ ( و السماء ذات البروج) (بروج) ۔(برج) کی جمع ہے جس کے معنی اصل میں قصر او رمحل کے ہیں ۔
بعض مفسرین نے اسے ظاہر و آشکار شے کے معنوں میں لیاہے اور بلند و بالا عمارات کو اس نام سے منسوب کرنے کا سبب ان کے ظاہر ہونے کو قرار دیا ہے ۔ اسی بنا پر شہر کے اطراف کی دیوار کے ایک خاص حصہ کو اور لشکر کے جمع ہونے کی جگہ کو جو نما یاں ہوتی ہے ، برج کانام دیا جاتا ہے اور جب عورت اپنی زینت کا اظہار کرے تو اسے تبرجت المراة کہا جاتا ہے ۔ ۱
۱۔ آسمانی برج یاتو آسمان کے درخشاں اور روشن ستاروں کے معنی میں ہے یا آسمانی شکلوں اور صورتوں کے معنی میںہے ، یعنی ستاروں کا ایسا مجموعہ جو ہماری نظروں کے اعتبار سے موجودات زمین میں سے کسی ایک سے مشابہت رکھتا ہے اور بارہ برج بارہ فلکی شکلیں ہیں ۔ سورج اپنے سالانہ سفر میں سے ہر ماہ ان میں سے ایک بر ج کی حدود میں گزارتا ہے ، البتہ سورج حرکت نہیں کرتا ۔ زمین اس کی گردش کرتی ہے لیکن نظر ایسا آتا ہے کہ سور ج حرکت کررہاہے اور ان فلکی صورتوں میں سے کسی ایک کے سامنے آگیا ہے ۔ ۲
ان معانی میں سے جو بھی ہوں وہ عظیم ہیں اور پھر ان کی عظمت بھی ایسی ہے جو غالباً اس زمانے میں عربوں پرواضح نہیں تھی لیکن موجودہ زمانے میں ہمارے لئے جانی پہچانی ہے ۔ اگر چہ زیادہ یہی نظر آتا ہے کہ مراد وہی آسمانی ستارے ہوں۔ ایک حدیث میں منقول بھی ہے کہ لوگوں نے پیغمبر اسلام سے اس آیات کی تفسیرپوچھی تو آپ نے فرمایا کہ اس سے مراد ستارے ہیں ۔ ۳
اس کے بعد دوسری آیت میں ارشاد ہوا : ” اور قسم ہے اس موعود دن کی “( قیامت کا دن جس کا وعدہ کیا گیا ہے ) ۔ ( و الیوم الموعود)۔ وہی دن جس کی تمام انبیاء اور پیغمبروں نے خبر دی ہے اور کئی سو قرآنی آیتیں جس کے ثبوت کے طور پر وہی دن جو اولین و آخرین کی وعدہ گاہ ہے اور وہی دن جس میں سب کے حساب کا فیصلہ ہونا ہے ۔
تیسری اور چوتھی قسم میں فرماتاہے : ” اور قسم ہے شاہد و مشہود کی “ ( و شاہد و مشہود)۔ یہ کہ شاہد و مشہود سے کیا مراد ہے ، اس کی علماء نے بہت سی تفسیریں کی ہیں جو تعداد میں تیس سے زیادہ ہیں جن میں سے اہم ترین درج ذیل ہیں:
۱۔ شاہد سے مراد پیغمبر اسلام  کی ذات گرامی ہے جیسا کہ قرآن مجید کہتا ہے : ( یا ایھا النبی انا ارسلناک شاہداً و مبشراً و نذیراً) ” اے پیغمبر ہم نے تجھے شاہد، بشارت دینے والے اور ڈرانے والے کی حیثیت سے بھیجا ہے “۔ ( احزاب۔ ۴۵)۔
اور مشہورسے مراد قیامت کا دن ہے جیسا کہ قرآن کہتاہے :( ذالک یوم مجموع لہ الناس و ذالک یوم مشہود)
قیا مت کا دن وہ دن ہے جس میں تمام لوگ جمع ہوں گے وہ مکمل طور پر ” مشہود“ اور آشکار دن ہے۔ ( ہود ۔ ۱۰۳)۔
۲۔ شاہد سے مرادانسان کے اعمال کے گواہ ہیں ، مثلاً اس کے جسم کے اعضاء جوارح جیسا کہ سورہ نور کی آیت ۲۴ میں ہمیں ملتا ہے ( یوم تشہد علیہم السنتھم و ایدیھم و ارجلھم بما کانوا یعملون ) وہ دن جس میں ان کی زبانیں ، ہاتھ اور پاوٴں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔ لہٰذا مشہود سے مراد انسان اور اس کے اعمال ہیں ۔
۳۔ شاہد کے معنی جمعہ کادن ہے جو نماز جمعہ کے بہت ہی اہم مراسم کے سلسلہ میں مسلمانوں کے اجتماع کا شاہد ہے اور ” مشہود“ عرفہ کا دن ہے کہ بیت اللہ الحرام کے زائرین اس دن کے شاہد و ناظر ہیں ۔
ایک روایت میں پیغمبر  اسللام ، اور امام محمد باقر  اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے یہ تفسیر منقول ہے ۔ 4
۴۔ شاہد عید قربان کا دن ہے اور ” مشہود “ عرفہ کا دن ہے ( جو عید قربان سے ایک دن پہلے ہے )۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک شخص مسجد نبوی میں داخل ہو ا، اس نے کسی کو دیکھا کہ بیٹھاہواہے اور رسول اللہ  سے حدیث نقل کررہاہے ۔ وہ کہتا ہے کہ میں نے اس شخص سے اس آیت کی تفسیر پوچھی تو اس نے کہا شاہد سے مراد جمعہ کا دن ہے ، وہ کہتاہے کہ میں وہاں سے ہٹ کر ایک د وسرے شخص کے پا س گیا وہ بھی رسول اللہ  سے حدیث نقل کررہا تھا تو میں نے اس آیت کی تفسیر اس سے بھی پوچھی تو اس نے کہا شاہد جمعہ کا دن اور مشہود عید قربان کا دن ہے ۔ اس سے ہٹ کر میں ایک جوان کے پاس گیا جو خوبصور ت تھا اور رسول خدا  ہی حدیث نقل کر رہاتھا میں نے کہا اس آیت کی تفسیر کے بارے میں کچھ بتا ، تو اس نے کہا :” شاہد محمد ہیں اور مشہود قیامت کا دن ہے ۔ کیاتو نے سنا نہیں کہ خدا کہتا ہے“ :
( یا ایھا النبی ان ارسلناک شاہداً و مبشراً و نذیراً) اور یہ بھی سنا کہ خدا کیا کہتا ہے : (ذالک الیوم المجموع لہ الناس و ذالک یوم مشہود)
میں نے سوال کیاکہ پہلا شخص کو ن تھا ، لوگوں نے بتایا ابن عباس ، دوسرے کے متعلق پوچھا تو بتا یا عبد اللہ بن عمر اور تیسرے کے متعلق پوچھا تو بتا یا کہ و ہ حسین  بن علی علیہ السلام تھے 5
۵۔ شاہد سے مراد راتیں اور دن ہیں اور مشہود سے مراد اولادِ آدم جن کے اعمال کی وہ گواہی دیں گے ، جیسا کہ امام زین العابدین علیہ السلام کی صبح و شام کی دعا میں ہم پڑھتے ہیں ( ھٰذا یوم حادث جدید و ھو علینا شاہد عتیدان احسنّا ودعنا بحمد و اناساٴنا فارقتنا بذنب) یہ نیا دن ہے جو ہمارے اعمال کا شاہد اگر ہم نیکی کریں توحمد و سپاس کے ساتھ ہم کو الودع کہے گا اور اگر برائی کریں تو مذمت کرتا ہوا ہم سے جدا ہوگا۔ 6
۶۔ شاہد سے مراد ملائکہ اور شہود سے مراد قرآن ہے ۔
۷۔ شاہد سے مراد حجر الاسود اور مشہود سے مراد حجاجِ حرم ہیں جو اس کے پاس آتے ہیں اور اس پر ہاتھ رکھتے ہیں ۔
۸۔ شاہد مخلوق اور مشہود حق تعالیٰ ہے ۔
۹۔ شاہد سے مراد امت اسلامی اور مشہود سے مراد دوسری تمام امتیں ہیں جیسا کہ سورہ بقرہ کی آیت ۱۴۳ میں آیا ہے ( لتکونوا شہداء علی الناس ) مقصد یہ ہے کہ تم دوسری امتوں پر گواہ بنو۔
۱۰۔ شاہد پیغمبر اسلام اور مشہود باقی تمام انبیاء ہیں۔ سورہ نساء کی آیت ۴۱ میں گواہی ہے ( و جئنا بک علیٰ ھٰوٴلاء شہیداً) اس دن ہم تجھے دوسرے انبیاء کا گواہ بنا کر لائیں گے ۔
۱۱۔ شاہد پیغمبر اور مشہود حضرت علی علیہ السلام ہیں ۔
البتہ اس آیت کی گزشتہ آیتوں سے مناسبت اس کو قبول کرتی ہے کہ روز قیامت کے شہود اور گواہوں کی طرف اشارہ ہو عام اس سے کہ وہ پیغمبر اسلام ہو یا باقی انبیاء اپنی امتوں کے مقابلہ میں ، یا ملائکہ ہوں یا بدن انسانی کے اعضاو جوارح، یا رات دن ، یا کچھ امور، اور مشہور سے مراد انسان ہوں یا ان کے اعمال ۔
اسی طرح بہت سے تفسیریں ایک دوسرے میں سے مدغم ہو جائیں گی اور ایک مجموعی مفہوم میں ان کا خلاصہ ہو جائے گا ۔ لیکن روز جمعہ ، روز عرفہ اور روز عید جیسی تفسیریں ان معانی سے الگ ہیں ، اگر وہ بھی روز محشر کے مشہود اور انسانوں کے اعمال کے گواہ ہیں بلکہ ان میں سے ہر ایک ایسا پر ہجوم دن ہے جو اس دنیا میں قیامت کا ایک منظر شمار ہوتا ہے ۔
اس بیان کی طرف توجہ کرتے ہوئے واضح ہو جاتا ہے کہ ان تفسروںکے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے اور ہوسکتاہے کہ شاہد و مشہود کے وسیع مفہوم میں یہ سب شامل ہوں ۔ اور یہ قرآن کی عظمت کی ایک نشانی ہے کہ اس میں اس قسم کے وسیع مفاہیم ہیں جو مختلف اور کافی تفسیروں کے اپنے اندر جگہ دیتے ہیں اس لئے کہ شاہد ہر قسم کے گواہ کو کہتے ہیں اور مشہود ہر اس چیز کو جس کی گواہی دی جائے ۔ پھر یہ دونوں نکرہ کی شکل میں بیان ہوئے ہیں جو اس شاہد اور مشہود کی عظمت کی طرف اشارہ ہے جو اوپر والی تفسیروں میں منعکس ہواہے ۔
قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ ایک لطیف و عمدہ تعلق ان چار حصوں کے درمیان اور اس مطلب کے درمیان ، جس کی قسم کھائی گئی ہے ، موجود ہے ، آسمان ، درخشاں ستارے اور اس کے موزوں برج سب کے سب نظم و حساب کی نشانی ہیں اور یومِ موعود حساب وکتاب کا واضح منظر ہے ، شاہد و مشہود بھی اسی حساب کی نکتہ رسی کا ذریعہ ہیں۔
پھر یہ تمام قسمیں اس لئے ہیں کہ ایذا پہنچانے والے ظالموں کو خبر دار کرے کہ سچے مومنین کے ساتھ کئے جانے والے ان کے تمام مظالم ثبت و ضبط ہیں اور یوم موعود کے لئے انہیں محفوظ کیاگیا ہے اور وہ مشہود جنہوں نے تمہارے جسم کو ہر طرف سے گھیر رکھا ہے ، عام اس سے کہ وہ فرشتے ہوں یا تمہارے جسم کے اعضاء و جوارح یا رات و دن یاا سی قسم کی اشیاء وہ سب ان کاموں کو نظر میں رکھے ہوئے ہیں اور قیامت میں گواہی دیں گے ۔ 7
اس لئے اس قسموںکے بعد فرماتا ہے :” موت اور عذاب تشدد کرنے والوں پریوں“ ( قتل اصحاب الاخدود ) ۔” وہی خندقین جو آگ اور لکڑیوں سے پر تھیں جن میں سے بڑے بڑے شعلے نکل رہے تھے “ ( النار ذات الوقود )۔ ” جس وقت وہ اس آگ کی خندق کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ( سرد مہری سے ) ( اذھم علیھا قعود) ۔” اور جو کچھ مومنین کے بارے میں انجام دے رہے تھے اسے دیکھ رہے تھے “۔ (وھم علیٰ ما یفعلون بالمومنین شہود
” اخدود “ مفردات میں راغب کے بقول زمینِ وسیع و عمیق اور کھلے ہوئے شگاف کے معنی میں ہے دوسرے لفظوں میں بڑی بڑی خندقوں اور گڑہوں کو کہتے ہیں ۔ اس کی جمع ”اخاوید “ہے اور اصل انسان کے خد سے لی گئی ہے جو انسان کی ناک کے دونوں طرف دائیں او ر بائیں دو دھنسی ہو ئی جگہوں کے معنی میں ہے ۔ ( رخسار) اور گریہ کرتے وقت اس پر آنسوں جاری ہوتے ہیں ۔
اس کے بعد بطور کنایہ اس گڑھے پر اس کا اطلاق ہوا ہے جو زمین پر ظاہر ہو ( پھر ایک حقیقی معنی کی شکل اختیار کر گیا ہے) یہ کہ یہ اذیت دینے والا گروہ کون تھا اور کس زمانہ میں تھا ، مفسرین اور ارباب ِ تاریخ اس سلسلہ میں مختلف نظر یات کے حامل ہیں ، جن کی تشریح انشاء اللہ آیات کے ذیل میں نکات کی بحث میں آئے گی ۔
لیکن یہ طے شدہ بات ہے کہ انہوں نے آگ کی بہت بڑی بڑی خندقیں بنا رکھیں تھیں۔
وہ مومنین کو مجبور کرتے تھے کہ اپنے ایمان سے دستبردار ہو جائیں ۔ مومنین جس وقت اس کے مقابلہ میں کھڑے ہوتے تھے تو وہ انھیں جلانے والی ان بھٹیوں میں ڈال کر آگ لگادیتے تھے۔
’ ’ وقود“ اصل میں ان مادوں کے معنی میں ہے جس سے وہ آگ لگاتے تھے ،( لکڑیاںو غیرہ) اور ذات الوقود کی تعبیر اگرچہ ایندھن کی محتاج نہیں ہوتی ہے لیکن یہاں اس سے آگ بھڑ کانے والے مواد کی کثرت کی طرف اشارہ ہے ، جسے وہ استعمال کرتے تھے اور جس کی آگ طبعی طور پر بہت زیادہ اور طبیعی ہوتی تھی ۔
یہی وہ وجہ ہے کہ جسے بعض مفسرین نے سمجھا ہے کہ وقود کے دو معنی ہیں ، ایک ایندھن اور دوسرے شعلہ ، اور انہوں نے افسوس کیا ہے کہ مفسرین و مترجمین نے اس نکتہ کی طرف توجہ کیوں نہیں کی۔
اس آیت ( اذھم علیھا قعود) اور اس کے بعد کی دوسری آیت سے مراد یہ ہے کہ ایک گروہ انتہائی سرد مہری سے بیٹھا ہو اتھا اور اس تشدد کو دیکھ رہا تھا اور لذت حاصل کررہا تھا ، جو خود ان کی انتہائی قساوت اور سخت دل ہونے کی نشانی ہے ۔
بعض مفسرین نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ گروہ مذہب حق سے مومنین کو رو گرداں کرنے پر مامور تھا ۔ بعض نے انہیں دو گروہوں پرمشتمل سمجھا ہے ، ایک اذیت دینے والا اور دوسرا تماشہ دیکھنے والا ۔ اور چونکہ دیکھنے والے تشدد کرنے والوں کے اعمال سے راضی تھے لہٰذا اس فعل کی ان سب کی طرف نسبت دی گئی ہے اوریہ فطری، بات ہے کہ اس قسم کے کام میں ایک گروہ ہمیشہ کام کرنے والا ہوتا ہے اور ایک دیکھنے والا ۔
علاوہ از ایں ان کے سرغنے عام طور پر حکم دیتے ہیں اور کارندے نچلے طبقے کے لوگ ہوتے ہیں ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایک گروہ بیٹھا ہوا تھا اور تشدد کے عمّال کی نگرانی کررہا تھا کہ وہ متعلقہ کام سے کسی قسم کی رو گردانی نہ کریں اور باد شاہ کے سامنے گواہی دیں کہ انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو اچھی طرح نبھا یا ہے ۔ اس گروہ کی تشکیل ان مختلف گروہوں سے بھی بعید نظر نہیں آتی ۔ لہٰذا ان تمام تفسیروں کے درمیان جمع بھی ممکن ہے ۔
بہر حال یفعلون کا جملہ فعل مضارع کی شکل میں اس بات کی دلیل ہے کہ یہ عمل ایک مدت استمرار رکھتا تھا اور کوئی یک لخت ہونے والا حادثہ نہیں تھا ۔ اس کے بعد مزید کہتا ہے : ” وہ تشدد کرنے والے ان مومنین پر سوائے اس کے اور کوئی اعتراض نہیں رکھتے تھے کہ وہ خدا وند ِ عزیزو حکیم پر ایمان لائے ہوئے تھے “ ( وما نقموا منھم االاَّ ان یوٴمنوا باللہ العزیز الحمید
جی ہاں ! ان کاجرم اور گناہ صرف خدائے واحد و یگانہ و یکتا پر ایمان تھا ۔ خدا وند قادر جو ہر قسم کی ستائش کے لائق اور ہر قسم کے کمال کا جامع ہے ، تو کیا اس قسم کے خدا پر ایمان لانا جرم و گناہ ہے یا ہر قسم کے شعور و شائستگی سے محروم بتوں پر ایمان رکھنا کوئی گناہ یا جرم ہے ؟
نقموا“ ” نقم “ ( بروزن قلم ) کے مادہ سے کسی چیز کا انکار کرنے یا اسے عیب لگانے کے معنی میں ہے ۔ زبانی طور پر عیب لگانا یا کسی عملی طور پر سزا دینا ، یہ دونوں پہلو اس کے معنی میں داخل ہیں ۔ اسی مادہ سے انتقام ہے
یہ بات طے شدہ ہے کہ اس قسم کا کام ایک بڑے اور واضح گناہ کے مقابلہ میں سر انجام پاتا ہے ، نہ کہ پروردگار عالم پر ایمان لانے کے سلسلہ میں ۔
اس قسم کے اقدام سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ قوم جو یہ کام کررہی تھی اس کا تمدن نہایت پست اور بگڑا ہوا تھا ، جبھی تو ان کے نزدیک افتخار واعزاز والا کام عظیم ترین جرم و گناہ تھا ۔
بہر حال یہ چیز سورہ مائدہ کی آیت ۵۹ میںآئی ہے کہ جادو گروں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے اور فرعون کی طرف سے تشدد اور قتل کی دھمکی کے بعد اس سے کہا کہ ( ھل تنقمون منّا الا ان امنا با للہ ) تو ہم سے صرف اس وجہ سے انتقام لے رہاہے کہ ہم اپنے پر وردگار پر ایمان لے آئے ہیں ۔
” عزیز“ طاقتور اور شکست نہ کھانے والے اور” حمید“ہر قسم کی تعریف اور توصیف کے قابل اور ہر قسم کے کمال کے حامل کی تعبیر حقیقت میں ان کے جرائم کا جواب ہے اور ان کے برخلاف ایک دلیل ہے یعنی کیا اس قسم کے خدا پر ایمان لانا جرم و گناہ ہے ۔
ضمنی طور پر یہ بھی واضح ہے کہ یہ بات تشدد کرنے والے کے لئے پورے دورِ تاریخ میں ایک قسم کی تہدید و تنبیہ بھی ہے کہ خدا وند عزیز و حمید ان کی کمین گاہ میں ہے ۔ اس کے بعد وہ عظیم معبود اپنے دو اور اوصاف کو بیان کرتے ہوئے مزید فرماتا ہے :
” وہی خدا کہ آسمان اور زمین کی حکومت جس کے لئے ہے اور جو ہر چیز کا گواہ ہے اور ہر جگہ حاضر و ناظر ہے ( الذی لہ ملک السماوات و الارض و اللہ علی کل شیء شہید
حقیقت میں یہ چار اوصاف ایسے ہیں جو عبودیت کی قابلیت کومسلم کردیتے ہیں کہ خدا وہ ہے جو قادر و تواناہے ، ہر قسم کے کمال کا حامل ہے وہ آسمانوں اور زمین کا مالک ہے اور ہر چیز سے آگاہ ہے ، یہ چیز مومنین کے لئے بشارت بھی ہے کہ خدا حاضر و ناظر ہے اور ایمان کی حفاظت کے سلسلہ میں وہ ان کے صبر و استقامت کو دیکھتا ہے اور ان کے ایثار و قربانی اور فدا کاری کا اسے علم ہے ۔
ایسی صورت حال ان کو قوت توانائی اور احساس نشاط عطا کرتی ہے دوسرے یہ ان کے دشمنوں کے لئے تہدید اور دھمکی ہے کہ اگر خدا ان کے کام میں مانع نہیں ہوتا تو یہ ا س کمزوری کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ آزمائش اور امتحان کی وجہ سے ہے اور انجام کار یہ ظالم اپنے گناہ کے نتیجہ میں درد ناک عذاب کا تلخ مزہ چکھیں گے۔

 


۱۔ بعض محققین کا نظریہ ہے کہ یہ لفظ فارسی لفظ ”بزر“ سے لیا گیاہے جو بلندی ، بزرگی اور شکوہ کے معنی رکھتا ہے ، برہان قاطع اور اس کے حاشیہ کی طرف رجوع کیا جائے۔
۲یہ بارہ صورتیں عبارت ہیں حمل ، ثور، جوزا، سرطان ، اسد، میزان، ، عقرب، قوس، دلو اور حوت سے جو اسی ترتیب سے گوسفند ، بیل ، دو بچے جو اخروٹ کھیل رہے ہیں ، کیکڑا، شیر، خوشہ ، ترازو، بچھو، کمان ، بکری، ڈول اور مچھلی کی شکلیں ہیں۔
۳۔ در المنثور جلد۶، ص۳۳۱۔
4۔ مجمع البیان ، جلد ۱۰ ص ۴۶۶۔
5۔ نور الثقلین ، جلد۵، ص۵۴۳۔ یہی مضمون ابو الفتوح رازی اور طبرسی نے بھی اپنی تفسیروں میں نقل کیاہے
6۔ صحیفہ سجادیہ ، دعائے ششم ۔
7۔ اس بناپر جواب قسم یہاں محذوف ہے اور قتل اصحاب الاخدود کا جملہ یا ان الذین فتنوا المومنین و المومنات اس پر دلالت کرتے ہیں اور تقدیر میں اس طرح ہے ۔ اقسم بہٰذا الامور ان الذین فتنوا المومنین و الموٴنات معذبین ملعونون کمالعن اصحاب الاخدود۔ میں ان امور کی قسم کھاتا ہوں جن لوگوں نے مومنین مرد و عورت کو مصیبت میں ڈالا وہ ملعون و معذب ہیں ، جس طرح خندق والے معذب تھے۔
۱۔ اصحابِ اخدود کون لوگ تھے ؟اس سورہ کی فضیلت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma