خداوند عالم نے جب انسان کو پیدا کیا تو اس کی مرضی یہ تھی کہ انسان ھدایت کی شاھراہ پر گامزن اور ضلالت و گمراھی کے راستوں سے دور رھے۔ اسی بنا پر خداوند عالم نے اس روئے زمین پر سب سے پہلے جس انسان کو بھیجا اس کو رھبر بنا کر بھیجا۔ تاکہ بعد میں آنے والے رھبر کی تلاش میں سرگرداں نہ رھیں۔
رھبر کے ساتھ ساتھ خداوند عالم نے ایک ایسا جامع نظام حیات بھی بھیجا جس کے تمام قانون فطرت کی بنیاد پر بنائے گئے ھیں، تاکہ قوانین پر عمل کرنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔ یہ قوانین فطرت کے سانچے میں اس لئے ڈھالے گئے کہ ان پر عمل کرنے کے لئے بس ضمیر کی آواز کافی ھو اور رھبروں کی ذمہ داری توجہ دلانا ھو ۔۔ اس حقیقت کی طرف مولائے کائنات (ع) نے نہج البلاغہ میں ارشاد فرمایا ھے: ۔۔
انبیاء اس لئے مبعوث کیے گئے تاکہ وجود انسانی میں عقل کے پوشیدہ خزانوں کو سامنے لاسکیں۔
جس وقت سے زمین آباد ھوئی ھے اس وقت سے آج تک کبھی ایسا نہیں ھوا کہ پوری زمین پر اللہ کی حکمرانی ھو، اور بس اسی کا قانون چل رھا ھو۔ ھاں جناب سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں ضرور کچھ دن دنیا پر اللہ کے قوانین کی حکومت تھی۔ کچھ دن اس مدّت کے مقابلہ میں لکھا گیا جب الٰہی احکام کا نفاذ نہیں تھا۔
ایک طرف ھم یہ دیکھ رھے ھیں کہ شیطان کی مسلسل کوشش یہ ھے کہ الٰہی احکام نافذ نہ ھونے پائیں۔ ھدایت کی شاھراہ کے بجائے انسان ضلالت کی وادیوں میں ھاتھ پیر مارتا رھے اور اسی حالت میں جان دے دے۔
ھم یہ دیکھتے ھیں کہ گمراہ کرنے کا جو منصوبہ شیطان نے بنایا تھا وہ اس میں کافی حد تک کامیاب رھا اور آج تک الٰہی احکام ساری دنیا پر نافذ نہ ھوسکے۔
ایک مدت کے بعد خدا کے مخلص بندوں نے ایران سے شیطانی حکومت کو اکھاڑ پھینکا اور الٰہی احکام نافذ کئے۔ مگر شیطان نے اس حکومت کے خلاف اتنا زیادہ پروپیگنڈہ کیا کہ نزدیک کے ممالک بھی حقیقت حال سے آگاہ نہ ھوسکے اور اندیشہائے دور و دراز میں مبتلا نظر آتے ھیں۔
ہاں ایک سوال یہ ھوسکتا ھے کہ کیا تک یہی صورت حال رھے گی۔ ساری دنیا پر اللہ کے احکام نافذ نہ ھوپائیں گے، اور شیطان کی عمل داری قائم رھے گی؟۔
اگر اس سوال کا جواب مثبت ھے تو اس کا مطلب یہ نکلے گا کہ الٰہی احکام میں اس کی لیاقت ھی نہیں کہ ساری دنیا پر ان کا نفاذ ھوسکے۔
وہ لوگ جو عقیدۂ مہدویت کے قائل نہیں ھیں ان کے پاس گذشتہ سوال کا جواب ھی نہیں۔
البتہ وہ افراد جو عقیدۂ مہدویت کو دل سے لگائے ھوئے ھیں، یقین کامل سے یہ بات کہتے ھیں کہ شیطان کی ساری ریشہ دوانیاں پس چند روزہ ھیں، باطل کی چمک دمک وقتی ھے۔
ایک دن یقیناً ایسا آئے گا جب اللہ کی آخری حجت کا ظھور ھوگا۔ روئے زمین پر صرف اللہ کے احکام نافذ ھوں گے۔ فطرت سے منحرف انسان اپنی فطرت کی طرف واپس آجائے گا، انسان کا ضمیر اتنا زیادہ بیدار ھوجائے گا کہ وہ انسان کو انحراف سے باز رکھے گا۔
حضرت ولی عصر (عج) کے سلسلے میں اس مختصر کتاب میں جامع معلومات فراھم کی گئی ھیں۔
اس کے پہلے ایڈیشن میں صرف انتظار کا فلسفہ بیان کیا گیا تھا۔ لیکن اس جدید ایڈیشن میں کئی نئے مباحث کا اضافہ کیا گیا ھے۔
انتظار بھی استاد بزرگوار آیۃ اللہ مکارم شیرازی مدظلہ کے قلم کی تخلیق تھا اور جن نئے مباحث کا اضافہ کیا گیا ھے وہ بھی استاد بزرگوار کی گراں مایہ تصنیف مھدی انقلابی بزرگ سے اقتباس کیے گئے ھیں۔
نام: محمد
کنیت: ابو القاسم
القاب: مھدی، صاحب الزمان، قائم، منتظر، ولی عصر، بقیۃ اللہ…
والد بزرگوار: حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام
والدۂ ماجدہ: جناب نرجس خاتون
تاریخ ولادت: 15/ شعبان، 255 ھجری
جائے ولادت: سامراء (عراق)
غیبت صغریٰ: 260 ھجری
غیبت صغریٰ میں امام علیہ السلام کے نائبین:
(1) ابو عمر عثمان بن سعید العمری (ربیع الاول 260 - شعبان 265)
(2) ابو جعفر محمد بن عثمان بن سعید العمری _شعبان 265 - جمادی الاولیٰ 305)
(3) ابو القاسم حسین بن روح النوبختی (جمادی الاولیٰ 305 - شعبان 326)
(4) ابوالحسن علی بن محمد السمری (شعبان 326 - شعبان 329)
329 ھجری کے بعد غیبت صغریٰ تمام ھوگئی۔
غیبت صغریٰ میں امام علیہ السلام عام نگاھوں سے پوشیدہ تھے۔ مگر ان نائبین کے ذریعہ امام تک رسائی ممکن تھی۔ یہ نائبین لوگوں کے مسائل امام کی خدمت میں پیش کرتے تھے اور امام جواب مرحمت فرمادیتے تھے۔ ایک نائب کے انتقال کے بعد دوسرے نائب کا تعین فرمادیتے تھے۔ لیکن ابوالحسن السمری کے انتقال سے چند دن پہلے آپ نے توقیع میں تحریر فرمایا کہ:
اسی ھفتہ تمھارا انتقال ھوجائے گا، تم کسی کو نائب معین نہ کرنا۔۔۔۔۔
غیبتِ کبریٰ شروع ھونے والی ھے، خدا کے حکم سے ظھور ھوگا۔ اس دوران جو میری ملاقات کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ھے۔
غیبت صغریٰ کے بعد نیابت خاصہ کا دور ختم ھوگیا۔ غیبت کبریٰ میں نیابت عامہ کا آغاز ھوا۔ غیبت کبریٰ میں امام نے دین کے تحفظ کی ذمہ داری کسی خاص فرد پر نہیں بلکہ عادل فقہاء پر عائد فرمائی ھے۔
ایک توقیع میں امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
جدید مسائل کے بارے میں ھماری احادیث کے راوی (فقہاء) کی طرف رجوع کرو، کیونکہ یہ میری طرف سے تم لوگوں پر حجت ھیں اور میں خدا کی طرف سے ان پر حجت ھوں، ان کی بات کو رد کرنا میری بات کا رد کرنا ھے۔
گذشتہ انبیاء علیہم السلام کی شریعتیں اس لئے تحریف کا شکار ھوگئیں کہ اس وقت ایسے امین فقہاء نہ تھے ۔۔۔ لائق صد آفریں ھیں وہ فقہاء جنھوں نے دین کو تحریف سے محفوظ رکھا اور ھم تک دین پہونچایا ۔۔ اور اس اسلام دشمن دور میں اسلام کا پرچم بلند کیے ھوئے ھیں۔ سلام ھو ان فقہاء پر۔
جس دن ان کی ولادت ھوئی، جس دن ان کی وفات ھوئی اور جس دن وہ محشور کیے جائیں گے۔
آئیے حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کے اقوال پر ایک نظر ڈالیں، اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔
میرا وجود غیبت میں بھی لوگوں کے لیے ایسا ھی مفید ھے جیسے آفتاب بادلوں کی اوٹ سے۔
میں زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح بھردوں گا جس طرح وہ ظلم و جود سے بھر گئی ھے۔
ظھور میں تعجیل کے لئے دعا مانگو کیونکہ اسی میں تمھاری بھلائی ھے۔
جو لوگ ھمارے اموال کو مشتبہ اور مخلوط کیے ھوئے ھیں، جو کوئی بھی اس میں سے ذرہ برابر بلا استحقاق کھائے گا گویا اس نے اپنا شکم آگ سے پر کیا۔
میں اھل زمین کے لئے اس طرح باعثِ امان ھوں جس طرح ستارے اھل آسمان کے لئے۔
ھمارا علم تمھارے سارے حالات پر محیط ھے اور تمھاری کوئی چیز ھم سے پوشیدہ نہیں ھے۔
ھم تمھاری خبر گیری سے غافل نہیں ھیں اور نہ تمھاری یاد اپنےدل سے نکال سکتے ھیں۔
ھر وہ کام کرو جو تمھیں ھم سے نزدیک کردے اور ھر اس عمل سے پرھیز کرو جو ھمارے لئے بار خاطر اور ناراضگی کا سبب ھو۔
تم میں کوئی تقویٰ اختیار کرے گا اور مستحق تک اس کا حق پہونچائے گا وہ آنے والی آفتوں سے محفوظ رھے گا۔
اگر ھمارے چاھنے والے اپنے عہد و پیمان کی وفا کرتے تو ھماری ملاقات میں تاخیر نہ ھوتی۔ اور ھماری زیارت انھیں جلد نصیب ھوتی۔
ھمیں تم سے کوئی چیز دور نہیں کرتی مگر وہ جو ھمیں ناگوار اور ناپسند ھیں۔
نماز شیطان کو رسوا کردیتی ھے، نماز پڑھو اور شیطان کو رُسوا کرو۔
تعجب ھے ان لوگوں کی نماز کیسے قبول ھوتی ھے جو سورہ انّا انرلناہ کی تلاوت نہیں کرتے۔
ملعون ھے ملعون وہ شخص جو نماز مغرب میں اتنی تاخیر کرے کہ تارے خوب کھل جائیں۔
اور ملعون ھے، ملعون ھے وہ شخص جو نماز صبح میں اتنی تاخیر کرے جب کہ تمام ستارے غائب ھوجائیں۔