بیداری تیار رہنے اور خطرے کے مقابلے میں چوکس

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 04

”حذر“ بروزن ” خضر“بیداری تیار رہنے اور خطرے کے مقابلے میں چوکس اور مستعد رہنے کے معنی میں ہے ” بعض اوقات یہ لفظ اس وسیلہ اور ذریعہ کے معنی میں بھی آتا ہے جس کی مدد سے خطرے کا مقابلہ کیا جاسکے ۔ ”ثبات“ ثبہ( بروزن گنہ ) کی جمع ہے ۔ غیر منظم اور منتشر دستوں کے میں لیا گیا ہے ۔ قرآن مجید مندرجہ بالا آیت میں تمام مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے انھیں اجتماع اور وجود کے تحفظ کے لئے دو احکام اور ہدایات دیتا ہے
پہلے کہتا ہے اے وہ لوگو! جو ایمان لاچکے ہو، بڑی باریک بینی سے دشمنوں اور ان کے جاسوسوں پر نظر رکھے رہو ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم ان کی طرف سے غافل ہو کر کسی خطرے سے دو چار ہو جاوٴ( یا ایھا الذین امنوا خذو اخذرکم ) اس کے بعد حکم دیتا ہے کہ دشمن سے مقابلہ کرنے کے لئے مختلف طریقوں اور تکنیکوں (TECHNIQUES)سے استفادہ کرو اور متعدد دستوں کی صورت میں یا اکھٹے ہو کر دشمن کو زیر کرکے نکل پڑو

فَانفِرُوا ثُبَاتٍ اٴَوْ انفِرُوا جَمِیعًا)جہاں مختلف دستوں اور بکھری ہوئی ٹولیوں کی صورت میں حرکت کرنا ضروری ہو وہاں اس طریقے سے آگے بڑھو اور جہاں یہ امر لازمی ہو کہ سب ایک متحد لشکر کی صورت میں دشمن کے مقابلے پر نکلیں، وہاں اجتماعیت سے غفلت نہ ہو تو ۔۔۔بعض مفسرین نے مندرجہ بالا آیت میں ” حذر“ کی تفسیر صرف اسلحہ کی معنی میں کی ہے حالانکہ حذر کے وسیع معنی ہیں اور اس کا مفہوم اسلحہ تک محدود نہیں ہے ۔ علاوہ ازیں خود اسی سورہ کی آیہٴ ۱۰۲ میں واضح دلیل موجود ہے جہاں حذر اسلحہ سے مختلف معنی میں استعمال ہوا ہے جہاں خدا فرماتا ہے :
ان تضعوا اسلحتکم و خذو حذرکم
کوئی حرج نہیں کہ ضرورت کے وقت نماز کے موقع پر میدان جنگ میں اپنے ہتھیار زمین پر رکھ دو ۔ لیکن حذر یعنی نگرانی اور آمادگی پر مستعد رہو ۔
یہ آیت جامع ہے اور اپنے اندر تمام پہلو لئے ہوئے ہے ۔ تمام مسلمانوں کے لئے اس میں ہر عہد اور ہر دور کے مطابق حکم موجود ہے ۔
کہ اپنی امنیت کی حفاظت اور اپنی سر حدوں کے دفاع کے لئے ہمیشہ مستعد رہو ۔ اور ایک قسم کی مادی و معنوی آمادگی ہمیشہ تمہاری جمعیت پر غالب و حاکم رہے ۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ” حذر“کا معنی اس قدر وسیع ہے کہ جو ہر قسم کے مادی روحانی اور معنوی وسیلہ اور ذریعہ کو اپنے اندر سمو ئے ہوئے ہے ۔ ان باتوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ وقت اور ہر زمانے میں دشمن کی حیثیت، اس کے ہتھیاروں اور جنگی طو طریقوں سے باخبر ہوں اور اپنی تیار ی کے معیار کے ساتھ دشمن کے اسلحہ کی تعداداورکار کردگی کو جانتے ہوں ۔ کیونکہ یہ تمام مذکورہ باتیں دشمن کی طرف سے خطرہ کی پیش بندی اور ” حذر“ کے مفہوم کو سمجھنے میں موٴثر ہیں ۔
دوسری طرف اپنے دفاع کے لئے ہر طرح کی مادی اور روحانی تیاری ناگزیر ہے ، یہ تیاری تعلیمی ، اقتصادی اور افرادی وقوت کو فراہمی کے حوالے سے بھی مکمل ہونا چاہئیے ۔ اسی طرح جدید اسلحہ کی فراہمی اور اس کے استعمال کے طور طریقوں سے آگاہی بھی ضروری ہے ۔
یہ امر مسلم ہے کہ مسلمانوں نے اگر صرف اسی ایک آیت کو اپنی زندگی پر منطبق کرلیا ہوتا تو اپنی تمام تاریخ میں کبھی شکست اور ناکامی کا منہ نہ دیکھتے ۔ جیسا کہ اوپ والی آیت میں اشارہ ہے کہ جنگ کے مختلف طور طریقوں سے استفادہ کرتے ہوئے کبھی جمود اور دقیانوسیت کا شکار نہ ہونا ، بلکہ وقت اور مقام کے تقاضوں اوردشمن کی حیثیت دیکھتے ہوئے قدم اٹھانا چاہئیے ۔ جہاں دشمن کی حالت اس قسم کی ہے کہ وہاں مختلف دستوں کی صورت میں اس کی طرف پیش قدمی کرنا چاہئیے تو اس طریقے سے استفادہ کرو اور دشمن کے مقابلہ میں ہر دستہ کی مخصوص حکمت عملہ ہو اور جہاں ضرورت ہو کہ سب منظم ہو کر ایک حکمت عملی کے مطابق حملہ کریں تو وہاں ایک ہی صف میں کھڑے ہوجائیں ۔ یہاں واضح ہو جاتا ہے کہ بعض افراد جو اصرار کرتے ہیں کہ اپنی اجتماعی جنگوں میں سب مسلمان ایک ہی طریقہ کو اپنا ئیں اور ان کی تکنیکوں میں کسی قسم کا فرق نہیں ہو نا چاہئیے ، ان کا موٴلف درست نہیں ۔ ویسے بھی یہ بات منطبق اور تجربے کے خلاف ہے اور اسلامی تعلیمات کی روح کے منافی ہے اور شاید او پر والی آیت اس پہلو کی طرف اشارہ کرتی ہو ۔ حقیقی مقاصد و اہداف کے حصول کے لئے یہ ایک اہم کلیہ ہے ۔
ضمنی طور پر ” جمیعاً“ کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ دشمن کے مقابلہ کے لئے تمام مسلمان بغیر کسی استثناء کے شر کت کریں
اور یہ حکم کسی معین دستہ سے مخصوص نہیں ہے ۔

 

۷۲۔وَإِنَّ مِنْکُمْ لَمَنْ لَیُبَطِّئَنَّ فَإِنْ اٴَصَابَتْکُمْ مُصِیبَةٌ قَالَ قَدْ اٴَنْعَمَ اللهُ عَلَیَّ إِذْ لَمْ اٴَکُنْ مَعَہُمْ شَہِیدًا۔
۷۳۔ وَلَئِنْ اٴَصَابَکُمْ فَضْلٌ مِنَ اللهِ لَیَقُولَنَّ کَاٴَنْ لَمْ تَکُنْ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہُ مَوَدَّةٌ یَالَیْتَنِی کُنتُ مَعَہُمْ فَاٴَفُوزَ فَوْزًا عَظِیمًا۔
ترجمہ
۷۲۔ تمہارے درمیان کچھ( منافق)لوگ ہیں کہ وہ خود بھی کاہل ہیں اور دوسروں کو بھی سست بناتے ہیں اگر کوئی مصیبت آپہنچے تو وہ کہتے ہیں کہ خدا نے ہم پر احسان کیا کہ ہم مجاہدین کے ساتھ نہیں تھے کہ ہم (اس مصیبت) کو دیکھتے ۔
۷۳۔ اگر کوئی مالِ غنیمت تمہیں مل جائے تو ٹھیک ،حالانکہ تم میں اور ان میں کوئی مودت و دوستی نہیں ۔ پھر بھی وہ بالکل اس طرح سے کہتے ہیں : کاش ! ہم بھی ان کے ساتھ ہوتے اور نجات اور عظیم کامیابی سے ہمکنار ہوتے ۔

 

12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma