”نتقنا“ کی اصل ”نتق“ (بروزن ”قلع“) ہے جس کے معنی کسی چیز کو کسی جگہ سے اکھیڑ کر کسی دوسری جگہ پھینک دیتے ہیں، جن عورتوں کے ہاں زیادہ بچے ہوتے ہیں انھیں بھی ”ناتق“ کہتے، کیونکہ وہ بچے کو اپنے رحم سے آسانی کے ساتھ جدا کرکے باہر ڈال دیتی ہے ۔
یہودیوں کی سرگزشت جو اس سورہ میں بیان کی گئی ہے یہ آیت اس سلسلہ کی آخری کڑی ہے، اس میں یہودیوں کی ایک اور سرگزشت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، یہ ایک ایسی سرگزشت ہے جس میں ایک درسِ عبرت ہے اور ایک عہدوپیمان کا ذکر بھی ارشاد ہوتا ہے: اور اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے پہاڑ کو ان کے سرکے اوپر قرار دیا اس طرح جیسے ایک سائبان سایہ فگن ہو (وَإِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَھُمْ کَاٴَنَّہُ ظُلَّةٌ) ۔
”اور اس طرح کہ انھیں لگتا تھا جیسے وہ ان کے سرپر گرپڑے گا“ وہ دیکھ کر سراسیمہ اور پریشان ہوگئے اور گڑاگڑانے لگے (وَظَنُّوا اٴَنَّہُ وَاقِعٌ بِھِمْ) ۔
اس حال میں ہم نے ان سے کہا: ”ہم نے جو احکام تمھیں دیئے ہیں انھیں مضبوطی سے تھام لو“ (خُذُوا مَا آتَیْنَاکُمْ بِقُوَّةٍ) ۔
”اور جو کچھ ان احکام میں آیا ہے اسے ذہن نشین کرلو تاکہ پرہیزگار ہوجاؤ“ خدا کی سزا سے ڈرو اور اس (کتاب) میں ہم نے تم سے عہد وپیمان لئے ہیں ان پر عمل کرو (وَاذْکُرُوا مَا فِیہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ)
یہ آیت، نیز سورہٴ بقرہ کی آیت ۶۳ تھوڑے سے فرق کےساتھ ایک ہی واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں جسے مشہور مفسّر علامہ طبرسیۺ نے اپنی کتاب ”مجمع البیان“ میں ابنِ زید کے حوالے سے بیان کیا ہے، یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب حضرت موسیٰ(علیه السلام) کوہِ طور سے پلٹ رہے تھے اور توریت کے احکام ان کے ساتھ تھے، انھوں نے جب اپنی قوم کو ان کی ذمہ داریوں اور حلال وحرام کے قوانین سے آگاہ کیا تو ان لوگوں نے یہ خیال کیا کہ ان تمام احکام پر عمل کرنا ایک بہت بڑا مشکل کام ہے، چنانچہ انھوں نے مخالفت پر کمر باندھی، اس موقع پر ایک پہاڑ سے ایک بہت بڑی چٹان الگ ہوکر ہَوا میں بلند ہوئی اور ان کے سروں پر آکر ٹھہر گئی، اس وقت وہ لوگ اتے خوفزدہ ہوگئے کہ انھوں نے حضرت موسیٰ(علیه السلام) کے سامنے گڑگڑانا شروع کردیا، حضرت موسیٰ(علیه السلام) نے اسی حال میں فرمایا: اگر تم ان عمل کرنے کا عہد کرلو تو یہ خطرہ تم سے دور ہوجائے گا، یہ سنتے ہی انھوں نے قبول کرلیا اور سجدے میں گڑپڑے اور وہ بلا ان سے دور ہوگئی ۔
یہاں پر دو سوال پیدا ہوتے ہیں جنھیں ہم نے سورہٴ بقرہ کی تفسیر میں ذکر کیا ہے اور ان کا جواب بھی دیا ہے، یہاں پر ان کا خلاصہ پیش کرتے ہیں ۔
پہلا سوال: کیا اس طرح کسی سے عہد لینا درست ہے؟ کیا اس میں جبر کا پہلو نہیں ہے؟
جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میں جبر کا پہلو ضرور ہے لیکن یہ بات بھی مسلّم ہے کہ جب ان سے خطرہ دور ہوگیا تو اختیار پلٹ آیا یعنی وہ باقی راستہ اپنی مرضی اور اختیار کے ساتھ طے کرسکتے تھے ۔
اس کے علاوہ ایک جواب اور بھی دیا جاسکتا ہے کہ عقائد کے معاملے میں جبر واکراہ لا یعنی چیز ہے لیکن جو امور انسان کے فعل وعمل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان میں نوعِ بشر کی خیر وسعادت ہے ان میں جبر واکراہ کرنے میں کیا حرج ہے، اگر کسی کو نشہ پینے سے جبراً روکا جائے یا اسے کسی خطرناک راستے پر چلنے سے جبراً روک دیا جائے تو کیا یہ کوئی بُری بات ہے؟
دوسرا سوال: پہاڑ ان کے سروں پر کس طرح ٹھہرا رہا؟
جواب یہ ہے کہ بعض مفسّرین کا خیال ہے کہ حکمِ خدا کی وجہ سے کوہِ طور اپنی جگہ سے جدا ہوکر ان کے سروں پر سائبان کی طرح سایہ فگن ہوگیا تھا ۔
بعض کا کہنا ہے کہ ایک شدید زلزلے کی وجہ سے پہاڑ اس طرح ہلا اور ٹیڑھا ہوگیا کہ جو لوگ اس پہاڑ کے دامن میں تھے ان کے سروں پر پہاڑ کی چوٹی کا سایہ پڑنے لگا ۔
یہ احتمال بھی پایا جاتا ہے کہ اس پہاڑ سے ایک بہت بڑا پتھر الگ ہوکر ذار سی دیر کے لئے ان کے سروں پر ٹھہرا اور اس کے بعد وہ وہاں سے گذر گیا اور طرف گِر گیا ۔
بہرحال اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ ایک خارقِ عادت اور غیر معمولی بات تھی، طبیعت کو اس میں کوئی دخل نہیں تھا ۔
ایک دوسری بات جو اس آیت میں قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ خدا نے یہ نہیں کہا کہ وہ پہاڑ ان کے سروں پر سائبان بن گیا بلکہ یہ فرمایا کہ: گویا سائبان بن گیا (کاٴنّہ ظلة) ۔
یہ تعبیر یا تو اس وجہ سے ہے کہ اگر کسی کو اوپر سائبان بنایا جاتا ہے تو وہ اس کی حفاظت کے لئے بربنائے محبّت بنایا جاتا ہے، جبکہ یہ سائبان بعنوان تہدید وخوف بنایا گیا تھا، اور یا اس وجہ سے یہ
پانچ صفحہ غائب ہے
۱۷۲ وَإِذْ اٴَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِی آدَمَ مِنْ ظُھُورِھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ وَاٴَشْھَدَھُمْ عَلیٰ اٴَنفُسِھِمْ اٴَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوا بَلیٰ شَھِدْنَا اٴَنْ تَقُولُوا یَوْمَ الْقِیَامَةِ إِنَّا کُنَّا عَنْ ھٰذَا غَافِلِینَ.
۱۷۳ اٴَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا اٴَشْرَکَ آبَاؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَکُنَّا ذُرِّیَّةً مِنْ بَعْدِھِمْ اٴَفَتُھْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ.
۱۷۴ وَکَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْآیَاتِ وَلَعَلَّھُمْ یَرْجِعُونَ.
ترجمہ
۱۷۲۔ اُ س وقت کو یاد کرو جب تمھارے پروردگار نے اولادِ آدم کی صلب سے ان کی ذریت کو لیا اور اُنھیں اُن کے اپنے نفسوں پر گواہ بنادیا (اور پھر اُن سے سوال کیا) کیا میں تمھارا پروردگار نہیں ہوں ۔ اُنھوں نے کہا ہاں ہم گواہی دیتے ہیں ۔ (خدا نے ایسا کیوں کیا) اس لئے کہ وہ قیامت کے دِن یہ عذر پیش نہ کریں کہ ہمیں معلوم نہ تھا (اور توحید اور خدا کو جاننے کے فطری عہدسے بے خبر تھے) ۔
۱۷۳۔ یا تم یہ نہ کہو کہ ہمارے آباء واجداد تو بُت پرستی کرتے تھے اور ہم بھی تو اُن ہی کی اولاد تھے (لہٰذا اُن کی پیروی کرنے کے علاوہ ہمارے لئے اور کوئی راستہ نہ تھا) جو کچھ باطل پرستوں نے کیا، کیا ہمیں اُس پر سزا دیتا ہے اور ہلاک کرتا ہے ۔
۱۷۴۔ اور ہم اپنی آیات کو اس لئے کھول کر بیان کرتے ہیں کہ شاید وہ حق کی طرف لوٹ آئیں (اور یہ جان لیں کہ توحید کی آواز کی رُوح کی گہرائیوں میں اوّل دِن سے موجود تھی) ۔