سورہٴ حج
مدینہ میں نازل ہوئی
اس کی ۷۸ آیات ہیں
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اس سُورت کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس میں حج کے بارے میں کچھ آیات ہیں، یہ سورت ان سورتوں میں سے ہے جن کے مکّی یا مدنی ہونے میں مفسّرین اور مورخین قرآن میں اختلاف پایا جاتا ہے، بعض اس سورت کو ماسوائے چند آیات کے مکّی سمجھتے ہیںجبکہ بعض دوسرے اس کے برعکس خیال کرتے رکھتے ہیں ۔
اگر ہم مکّی اور مدنی سورتوں کے مطالب ومفاہیم، دونوں جگہوں کے ماحول، مسلمانوں کی ضروریات اور اسی لحاظ سے پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کو ذہن میں رکھ کر غور کریں تو فوراً واضح ہوجاتا ہے کہ اس سورت کی بعض آیات مدنی سورتوں میں پائی جانے والی آیات سے مشابہ ہیں، جیسے حج اور جہاد کے احکامات اور تفصیلات جن کا تعلق مُسلمانوں کی زندگی اور ضروریات سے ہے اور بعض آیات مکّی سورتوں میں پائی جانے والی آیات جیسی ہیں، مثلاً ابتدائے خلقت اور قیامت کی تفصیلات پر مشتمل ہیں ۔
”تاریخ القرآن“ کا موٴلف فہرست ابن ندیم اور نظم الدار، دو تاریخی کتب کے حوالے سے لکھتا ہے کہ سورہٴ حج ماسوائے چند آیات کے مدینہ میں نازل ہوئی اور وہ چند آیات بھی مکہ ومدینہ کے درمیان نازل ہوئیں ۔ ترتیبِ نزولی میں اس سُورت کا نمبر ایک سو چھ ہے، یہ سورت سورہٴ نور کے بعد اور سورہٴ منافقین سے پہلے نازل ہوئی ہے ۔
بہرحال مجموعی طور پر اس سورہ کا مدنی ہونا صحیح معلوم ہوتا ہے ۔
مطالب اور مضامین کے اعتبار سے اس سُورت کی مندرجہ ذیل تقسیم کی جاسکتی ہے ۔
بہت سی آیات اس مضمون کی حامل ہیں، ان میں قیامت کا منطقی استدلال اور غافل لوگوں کو جوابدہی کی وعید موجود ہے، غرضیکہ ابتدائی آیات اس بارے میں ہیں ۔
آیات کا دوسرا حصہ شرک اور مشرکین کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے سے متعلق ہے، ان آیات میں الله تعالیٰ کی آیات کے حوالے سے انسان کی توجہ خالق کی عظمت کی طرف دلائی گئی ہے ۔
آیات کا ایک حصّہ گزشتہ اقوام پر الله تعالیٰ کی طرف سے شدید عذاب اور ان کے عبرتناک انجام کے مطالعے کی ترغیب دیتا ہے، ان اقوام میں سے خاص طور پر قوم نوح، قومِ ثمود، قوم ابراہیم، قومِ لوط، قومِ شعیب اور قوم مُوسیٰ کا انجام یاد دلایا گیا ہے ۔
آیات کا چوتھا حصّہ حج کے بارے میں ہے، اس حصّے میں حج کا تاریخی پس منظر، حضرت ابراہیم(علیه السلام) سے لے کر طلوعِ اسلام تک حج کی تاریخ، مسئلہ قربانی اور طواف کے احکامات واضح طور پر بیان گئے ہیں ۔
۵۔ ظالموں کے خلاف قیام کا بیان
آیات کا ایک اور حصّہ جابروں اور ظالموں کے خلاف اٹھنے اور دشمنوں کی جارحیت سے نپٹنے کے بارے میں ہے ۔
آیات کا آخری حصّہ زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق وعظ ونصیحت پر مشتمل ہے، اس میں نماز اور زکات کی ترغیب دی گئی ہے، بھلائی کی تلقین، بُرائی پر تنبیہ اور توکل علی الله کی طرف رغبت دلائی گئی ہے ۔
اس سُورت کی تلاوت کے فضائل
اسلام کے گرامی قدر رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے ایک حدیث مروی ہے:
مَن قَرءَ سورة الحج اٴعطیٰ من الاٴجر کحجہ حجھا، عمرة اعتمرھا، بعدد من حج واعتمر فیما مضیٰ وفیما بقیٰ
”جو بھی سورہٴ حج کی تلاوت کرے الله اسے ان تمام لوگوں کی تعداد کے برابر اجر وثواب عطا کرے گا جو گذشتہ زمانے میں حج وعمرہ بجالائے اور جو آئندہ بجا لائیں گے ۔(۱)
اس میں شک نہیں کہ یہ کثیر ثواب اور درجہ عظیم صرف لفظی تلاوت سے حاصل نہیں ہوگا، بلکہ فکر ساز تلاوت سے حاصل ہوگا، ایسی فکر جو عمل پرور ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ جو کوئی اس سورت میں مندرج مبداء ومعاد کے نظریات کو دل کی گہرائیوں سے مانے، اخلاقیات، عبادات کو جان ودل سے اپنائے اور متکبّر وظالم طاقتوں کے خلاف جہاد سے متعلق آیات کو اپنی عملی زندگی کا جزء بنائے، اس کا رُوحانی رشتہ تمام گذشتہ وآئندہ مومنین کے ساتھ قائم ہوجاتا ہے، ایسا رشتہ کہ جس سے یہ ان کے اعمال میں شریک ہوجاتا ہے، اور وہ اس کے اعمال میں شریک ہوجاتے ہیں، جبکہ ان کے ثواب میں بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوتی، در حقیقت یہ ایک حلقہ اتصال بن جاتا ہے، جس میں ہر دور کے اہل ایمان شامل ہیں، اس تناظر میں مذکورہ بالا حدیث کا مضمون ہرگز عجیب معلوم نہیں ہوتا ۔