اہل سنت کے نزدیک”بداء“ بہت ہی قابل اعترا ض اور مکرو ہ عقیدہ ہے ،اسی طرح تقیہّ کو بھی وہ برُاسمجھتے ہیں اور اس پر شیعہ بھایئوں کا مذاق اُڑاتے ہیں بلکہ شیعو کو منافق سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شیعوں کے دل میں کچھ اور ہوتا ہے اور ظاہر کچھ اور ہوتاہے ۔
میں نے اکثر ا ہلِ سُنّت سے گفتگو کرکے انھیں یقین دلانے کی کوشش کی کہ تقیّہ نِفاق نہیں ہے لیکن انھیں تو کسی بات کا یقین ہی نہیں ہے آتا سِوائے اس کے کہ جو انھیں ان کی مذہبی عصبیت نے سکھا دیاہے یاجو ان کے بڑوں بزرگوں نے ان کے دل میں بٹھا دیا ہے ۔
یہ بڑے پوری کوشش کرتے ہیں کہ ان انصاف پسند اور تحقیق کے طالب لوگوں سے جو شیعو ں اور شیعہ عقائد کے متعلق معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں ، حقائق کو چھپائیں اور یہ کہہ کر انھیں شیعو ں سے متنفّرکرنے کی کوشش کریں کہ یہ عبداللہ بں سَبا یہودی کافرقہ ہے جو رجعت ” بَدَاء “ تقِیّہ ،عصمت اور متعہ کاقائل ہے اور اس کے عقائد میں بہت سے خُرافات اور فرضی باتیں شامل ہیں جیسے مثلاً مہدی منتظر وغیرہ کا عقیدہ ۔ جو شخص ان کی باتوں کو سنتا ہے وہ کبھی اظہارنفرت کرتاہے اور کبھی اظہار حیرت ۔ اور یہی سمجھتا ہے کہ ان خیالات کا اسلام سے کوئی تعلق نہی ہے یہ سب شیعو ں کی من گھڑت اور فرضی باتیں ہیں ۔
مگر جب کوئی شخص تحقیق کرتا ہے اور انصاف سے کام لیتا ہے تب اسے معلوم ہوتا ہے کہ ان سب عقائد کا اسلام سے گہرا تعلق ہے اور یہ قُرآن و سنّت کی کوکھ سے پیداہوئے ہیں سچ تو یہ ہے کہ اسلامی عقائد وتصورات ان کے بغیر اپنی صیحح شکل اختیاع ہی نہیں کر سکتے ۔
اہل سنت میں عجیب بات یہ ہے کہ جن عقائد کو وہ بُرا سمجھتے ہیں،ان ہی عقائد سے ان کی کتابیںاور احادیث کے معتبر مجموع بھرے ہوئے ہیں اب ایسے لوگوں کا کیا علاج ہو جو کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں اوار جو خود فااپنے عقائد کی اس لیے ہسنی اڑاتے ہیں کیونکہ شیعہ ان پر عمل کرتے ہیں ۔
ہم بداء کی بحث میں ثابت کر چکے ہیں کہ اہل سنت خو د بداء کے قائل ہیں لیکن اگر دوسرے بداء کی قائل ہوں تو ان پر عمل کرنے نہیں چوکتے ۔اب آئیے دیکھیں مسلہ میں اہل سنت والجما عت کیا کہتے ہیں اس کی بناپر تو وہ شیعو ں پر منافق ہونے تک کا الزام لگاتے ہیں۔ ابن جریرطبری اور ابن ابی حاتم نے عونی کے واسطے سے ابن عباس سے روایت بیان کی ہے کہ اس آیت ”الا ان تتقوا منھم تقاة“ کے بارے میں ابن عباس کہتے تھے کہ : تقیّہ زبان سے ہو تا ہے ۔اس کی صورت یہ ہے کہ کوئی کسی شخص کوایسی بات کہنے پر مجبورکرے جو اصل میں معصیت ہے تو وہ اگرلوگوں کے ڈرکے مارے وہ بات کہ دے جب کہ اس کا دل پوری طرح ایمان پر قائم ہو تو اسے کچھ نقصان نہیں ہو گا ۔ یہ بھی یاد رکھو کہ تقیّہ محض زبان سے ہوتا ہے(۱) ۔
یہ روایت حاکم نے نقل کی ہے اور اسے صحیح کہا ہے بہیقی نے بھی اپنی سُنن میں عطاء عن ابن عباس کے حوالے سے ”الا ان تتقوا منھم تقاة“۔
ایسی صورت میں کہ تم کو ان سے کچھ اندیشہ ء ضرور ہو (سورة آل عمران آیت۲۸) کامطلب بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ابن عباس کہتے تھے کہ تُقٰة کا تعلق زبان کے کہنے سے ہے بشرطیکہ دل ایمان پر قائم ہو۔
عبدبن حمیدنے حسن بصری سے روایت بیان کی ہے کہ حسن بصری کہتے تھے کہ تقیہ قیامت تک جائز ہے (۲) ۔
،عبدبن ابی رجاء نے نقل کیا ہے کہ حسن بصری اس آیت کو اس طرح پڑھتے تھے ”الا ان تتقوا منھم تقاة“(۳) ۔
عب الرزاق ،ابن سعد ، ابن جریرطبری ، ابن ابی حاتم اور ابن مردوَیہ نے مندرجہ ذیل روایت بیان کی ہیں حاکم نے مستدرک مین اسے صیحح کہا ہے بہیقی نے دلائل ِ میں اس کو نقل کیا ہے ۔ روایت یہ ہے :
مشرکین نے عمّار بن یاسِرۻ کوپکڑ لیا اور اس وقت تک نہ چھوڑاجب تک عماۻنے نبی اکرم کو گالی نہ دی اور مشرکین کے معبود وں تعریف نہ کی۔ ابن سعد طبقات الکبری ا۔
آخر جب عماّرۻ کو مشرکین نے چھوڑدیا تووہ رسول اللہ کے پاس آئے ۔ رسول اللہ نے پوچھا :کہو کیا گزری ؟ عماّرۻنے کہا : بہت برُی گزری انھوں نے مجھے اس وقت تک نہ چھوڑا جب تک میں نے آپ کی شان میں گستاخی نہ کی اور ان کے معبود وں کی تعریف نہ کی ۔رسول اکرم نے پوچا: تمھارا دل کیا کہتا ہے عمارۻنے کہا : میرادل تو ایمان پر پختہ اور قائم ہے رسول اکرم نے فرمایا :اگر وہ لوگ تم پر پھر زبردستی کریں تو پھر ایسے ہی کہہ دینا ۔اس پر یہ آیت نازل ہوئی :مَن کَفَرَبِااللہ من بعد ایمانہ الا من اکرہ و قلبہ مطمئن بالایمان۔
یعنی جو شخص ایمان لانے کے بعد خداکے ساتھ کفر کرے مگر وہ نہیں جو کفر پر زبر دستی مجبور کر دیا جائے اور اس کا ایمان کے ساتھ مطمئن ہو ۔(سورةنحل ۔ آیت۱۰۶) ۔
ابن سعد نے محمدبن سیرین سے روایت بیان کی ہے رسول اللہ نے دیکھا کہ عماّرۻرو رہے ہیں آپ نے ان کے آنسو پونچھے اور کہا (مجھے معلوم ہے کہ) کفّارنے تمھیں پانی میں ڈبودیاتھا تب تم نے ایسا کہا ۔ اگر وہ پھر تمھارے ساتھاایساہی سلوک کریں ،تو تم پھریہی کہہ دینا ۔ ابن سعدطبقات الکبرٰی ۔
ابن جریر،ابن منذر ،ابن ابی حاتم نے اور بہیقی نے اپنی سُنن میں عن عَلِیٍّ عن ابن عباس کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ ابن عباس اس آیت کی تفسیر میں کہتے تھے مَن کَفَرَ بِااللہ کہ اللہ نے خبر دی ہے کہ جس نے ایمان کے بعد کفر کیا ، اس پر اللہ کا غضب نازل ہو گا اور اس کے لیے سخت عذاب ہے مگر جسے مجبور کیا گیا اور اس نے دشمن سے بچنے کے لیے زبان سے کچھ کہ دیا مگر اس کے دل میں ایمان ہے اور اس کا دل اس کی زبان کے ساتھ نہیں ، تو کو ئی بات نہیں کیونکہ اللہ اپنے بندوں سے صرف اس بات کا مُوا خداکرتا ہے جس ان کا دل جم جائے ۔
اِبن ابی شَیبہ،ابن جریر طبری ، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد سے روایت بیان کی ہے کہ یہ آیت مکّے کے کچھ لوگوں کے بارے میں نازل ہو ئی تھی ۔ہوا یوں کہ یہ لوگ ایمان لے آئے تو انھیں بعض صحابہ نے مدینے سے لکھا کہ ہجرت کرکے یہاں آجاؤ ۔جب تک تم ہجرت کرکے یہاں نہیں آؤ گے ،ہم تمھیںاپنا ساتھی نہیں سمجھے گے ۔ اس پر وہ مدینہ کے ارادے اے نکلے ۔راستے میں انھیں قریش نے پکڑلیا ان پر سختی کی ۔ مجبوراً انھیں کچھ کلمات کفر کہنے پڑے ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہو ئی :اِلّامَن اُکرِہَ وقلْبہ مطمئن بالایمان.۔
بخاری نے اپنے صیح میں بابُ المراداةِمع النّاس میں ایک روایت روایت نقل کی ہے جس کے مطابق ابوالدرداء کہتے ہیں:کچھ لوگ ہیں جن سے ہم بڑی خندہ پیشانی سے ملتے ہیںلیکن ہمارے دل ان پر لعنت بھیجتے ہیں صیحح بخاری جلد۷ صفحہ۱۰۲ جنسی نے اپنی سیرت میں یہ روایت بیان کی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہنے شہر خیبر فتح کیا تو حَجّاج بن علاط نے آپ سے عرض کیا :یا رسول اللہ !مکے میں میراکچھ سامان ہے اور وہا ں میرے گھر والے بھی ہیں میںانھیں لاناچاہاتاہوں کیا مجھے اجازت ہے اگر میں کوئی ایسی بات کہہ دوں جو آپ کی شان میں گستاخی ہو ؟رسول اللہ نے اجازت دے دی اور کہا جو چاہے کہو ،،
علی بن برہان الدین شافعی ، العیون المروف بہ سیر ت ِ جلد ۳ صفحہ۶۱ امام غزّالی کی کتاب اِحیاء العلوم میں ہے کہ : مسلمان کی جان بچانا واجب ہے اگر کوئی ظالم کیسی مسلمان پر کو قتل کر نا چاہتا ہو اور وہ شخص چھپ جائے تو ایسے موقع پر جھوٹ بول دینا واجب ہے ،،حجتہ الاسلام ابو حامد غزالی ،اِحیاء عنو م الدین ۔جلالالدین سیوطی نے اپنی کتاب اَلاشباہ اؤالنظائر میں ایک روایت بیان کی ہے ۔ا س میں لکھا ہے :
”فاقہ کشی کی حالت میں مرادکھانا ، شراب میں لقمہ ڈبونا اور کفر کاکلمہ زبان سے نکالنا جائز ہے ۔ اگر کسی جگہ حرام ہی حرام ہو اور حلال شاذونادرہی ملتاہو تو حسبِ ضرورت حرام کا استعمال جائز ہے
ابو بکر رازی نے اپنی کتاب اَحْکاَمُ القُران میں اس آیت اِلّاَاَنْ تتقوا منھم تقاةکی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مطلب یہ ہے کہ اگر تمھیں جان جانے کا یا کسی عُضو کے تلف ہو جانے کا اندیشہ ہو تو تم کُفّار سے یہ ظاہر دوستی کا اظہار کرکے اپنی جان بچاسکتے ہو آیت کے الفاظ سے یہی معنی نکلتے ہیں اور اکثر اہل علم اِسی کے قائل ہیں ۔ قتادہ نے بھی لَاْیتخذ المومنون الکافرین اولیاء من دون المومنین۔کی تفسیر کرتے ہو ئے یہی کہا ہے کہ مُومن کے لیے جائز نہیں ہے کہ کسی کافر کو دین کے معاملے میں اپنا دوست یاسرپرست بنائے سِوائے اس کے کہ ضَررکا اندیشہ ہو ۔قتادہ نے مزید کہا ہے کہ” اِلْاّاَنْ تتقوا منھم تقاة“سے ظاہر ہوتا ہے تقّیہ کی صورت میں زبانی کفر کا اظہار جائز ہے “(۴) ۔
صیحح بُخاری میں عبروہ بن زُبیر سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ نے ایک دفعہ ایک شخص نے رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہو نے کی اجازت چاہی تو آپ نے فر ماےا : لغو آدمی ہے ،خیر آنے دو ۔ جب وہ شخص آیا تو آپ نے بڑی نرمی سے بات چیت کی۔میں پوچھا : یارسولاللہ !ابھی تو آپ کیا فرمایا تھا پھر آپ نے اس سے گفتگواتنی خوش اخلاقی سے کی ؟ آپ نے جو اب دیا : عائشہ !اللہ کے نزدیک وہ بدترین انسان ہے جس سے لوگ اس کی بدزبانی کی وجہ سے بچیں یااس کی بدزبانی کی وجہ سے اسے چھو ڑ دین (۵) ۔
اِس قدر تبصرہ یہ دیکھا نے کے لیے کافی ہے کہ اہل سُنت تقّیہ کے جوازکے پورے قائل ہیں ۔ وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ تقّیہ قیامت تک جائز رہے گا اور ۔جیسا غزالی نے کہا ہے ،ان کے نزدیک بعض صورتوں میں جھوٹ بولنا واجب ہے اور بقول رازی جمہورعلماء کا یہی مذہب ہے ۔بعض صورتو ں میں اظہار ِ کفر بھی جائز ہے اور ۔جیسا کہ بخاری اعتراف کرتے ہیں یہ ظاہر مُسکرانا اور دل میں لعنت کرنا بھی جائز ہے اور ۔جیسا کہ صاحب ِ سیرة حلَبیہ نے لکھا ہے ، اپنے مال کے ضائع ہو جانے کے خوف سے رسول اللہ کی شان میں گستاخی کرنا بلکہ کچھ بھی کہ دینا رواہے اور ۔ جیسا کہ سیو طی نے اعتراف کیا ہے لوگوں کے خوف سے ایسی باتیں کہنا بھی جائز ہے جو گناہ ہیں ۔
اب اہلِ سنُّت کے لیے اس کا قطعاًجو از نہیں کہ وہ شیعو پر ایک ایسے عقیدے کی وجہ سے اعتراض کریں جس کے وہ خود بھی قائل ہیں اور جس کی روایات ان کی مستند حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں جو تقّیہ کو نہ صرف جائز بلکہ وجب بتلاتی ہیں جن باتوں کے اہلِ سنت قائل ہیں ، شیعہ ان سے زیادہ کچھ نہیں کہتے ۔ یہ بات البتہ ہے کہ وہ تقّیہ پر عمل کرنے میں دوسروں سے زیادہ مشہور ہو گئے ہیں ۔اور وجہ اس کی وہ ظلم وتشدّدہے جس سے شیعو ں کو اُمَوی اور عباسی دور میں سابقہ پڑا ۔اس دور میں کسی شخص کے قتل کردیے جانے کے لیے کسی کا اتنا کہہ دینا کافی تھا کہ ”یہ بھی شیعانِ اہل بیت میںسے ہے ۔“
ایسی صورت میں شیعو ں کے لیے اس کے سواکوئی چارئہ کارہی نہیں تھاکہ وہ ائمّہ اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات کی روشنی میں تقّیہ پر عمل کریں امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : التقیة دینی و دین آبائی۔ تقّیہ میرااور میرے آباؤ اجداد کا دین ہے ۔
اور یہ بھی فرمایاکہ من لا تقیة لہ لا دین لہ جو تقیہ نہیں کرتا ، اس کا دین ہی نہیں ہے
تقّیہ خود ائمہ اہل بیت کا شِعار تھا ،اس کا مقصد اپنے آپ کو اور اپنے پیروکاروںاور دوستوں کو ضررسے محفوظ رکھنا ،ان کی جانیں بچانااور ان مسلمانوں کی بہتری کا سامان کرناتھاجو اپنے متقدات کی وجہ سے تشدّد کا شکار ہو رہے تھے ،جیسے مثلاً عماربن یاسر ۻ۔بعض کو تو عمار بن یاسر ۻ سے بھی زےادہ تکلیف اُٹھانی پڑی ہے
اہل سنت اِن مصائب سے محفوظ تھے کیونکہ ان کا ظالم حکمرانوں کے ساتھ مکمل اتحاد تھا اس لیے انھیں نہ قتل کا سامناکرنا پڑا ، نہ لوٹ کھسوت کا ، نہ ظلم وسِتم کا ۔ اس لیے یہ قدرتی امر ہے کہ وہ نہ صرف تقیہ کا انکا ر کرتے ہیں بلکہ تقیّہ کرنے والوں پر طعن و تشنیع بھی کرتے ہیں ۔در اصل بنی اُمیہ اور بنی عباس کے حکمرانوں نے تقیہ کی بناپر شیعوں کو بدنام کرنے میں بڑاکردار ادا کیا ہے ۔ان ہی کی پیروی اہل سُنت والجمات نے کی ہے
جب اللہ سبحانہ ، نے قرآن میں تقیّہ کا حکم نازل فرمایا ہے اور جب خود رسول اللہ نے اس پر عمل کیا ہے جیسا کہ بخاری میں آپ پڑھ چکے ہیں اس کہ علاوہ رسول اللہ نے عماّر بن یاسر ۻکو اجازت دی اگر کفّار پھر ان پر تشدّد کریں اور اذیّت دیں تو جو کلماتِ کفر کُفَّار کہلوانا چاہیں وہ کہہ دیں نیز یہ کہ قرآن و سُنت پر عمل کرتے ہوئے علماء نے بھی تقیّہ کی اجازت دی ہے تو پھر آپ ہی انصاف سے بتائیں کہ کیا اس کے بعد بھی شیعو ں پر طعن کرنا اور ان پر اعتراض کرنا درست ہے ؟
صحا بئہ کرام نے ظالم حکمران کے عہدمیں تقیّہ پر عمل کیا ہے ۔ا س وقت جبکہ ہر شخص کو جو علی بن ابی طالب (علیه السلام)پر لعنت لرنے سے انکار کرتاتھاقتل کر دیا جاتاتھا حجر بن عدی کندی اور ان کے ساتھیو ں کا قصّہ تو مشہور ہے اگر میں صحابہ کہ تقیّہ کی مثالیں جمع کرو ں تو ایک الگ کتاب کی ضرورت ہو گی لیکن میں نے اہل سُنت کے حوالوں سے جو دلائل پیش کیے ہیں وہ بَحَمْدُاللہ کا فی ہیں
لیکن اس موقع پر ایک د لچسپ واقعہ ضروربیان کروں گا جو خود میرے ساتھ پیش آیا ۔ایک دفعہ ہوائی جہاز میں میری ملاقات اہل سُنت کے ایک عالم سے ہو گئی ہم دونو ں بر طانیہ میں منقد ہونے والی ایک اسلامی کانفرس میں مدعو تھے ۔دو گھنٹے تک ہم شیعہ سُنّْی مسئلے پر گفتگو کرتے رہے ۔صاحب اسلام اتحاد کے داعی اور حامی تھے مجھے بھی ان میں دلچسپی پیداہو گئے تھی لیکن اس وقت مجھے برُا معلوم ہوا جب انھوں نے یہ کہا کہ شیعوں کو چاہیے کہ وہ اپنے بعض ایسے عقائد چھوڑدیں جو مسلمانو ں میں پھوٹ ڈالتے ہیں اور ایک دوسرے پر طعن وتسنیع کا سبب بنتے ہیں میں نے پوچھا:مثلاً انھونے بے دھڑک جواب دیا :مثلاًمتعہ اور تقیّہ ۔
میں نے انھیں بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ مُتعہ تو جائز ہے اور قانونی نکاح کی ایک صورت ہے تَقّیہ اللہ کی طرف سے ایک رعایت اور جائز ہے لیکن وہ حضرت بات پر اَڑے رہے اور میری ایک نہ مانی ،نہ ہی میرے دلائل انھیں قائل کرسکے ۔
کہنے لگے : جو کچھ آپ نے کہا ہے ممکن ہے کہ وہ صیحح ہو ،لیکن مصلحت یہی ہے کہ مسلمانوں کی وحدت کی خاطر ان چیزوں کو ترک کر دیا جائے ۔
مجھے ان ک منطق عجیب معلوم ہوئی،کیونکہ وہ مسلمانوں کی وحدت کی خاطر اللہ کے احکام کو ترک کرنے کا مشورہ دے رہے تھے ۔پھر بھی میں نے ان کا دل رکھنے کو کہا : اگر مسلمانوں کا اتحاد اسی پر موقوف ہوتا تو میں پہلا شخص ہوتا جو یہ بات مان جاتا ۔
ہم لندن ائیر پورٹ پر ُاترے تو میں ان کے پیچھے چل رہا تھا ۔ جب ہم ایئر پورٹ پولیس کے پاس پہنچے تو ہم نے سے برطانیہ آنے کی وجہ پوچھی گئی ۔
ان صاحب نے کہا میں اپنا علاج کرانے کے لیے آیا ہوں ۔
میں نے کہا کہ میں اپنے کچھ دوستوں سے ملنے آیا ہو ں ۔
اس طرح ہم دونوں کسی وقت کے بغیر وہاں پہنچ گئے جہاں سامان وصول کرنا تھا ۔اس وقت میں نے ان کے کان میں چپکے سے کہا کہ: آپ نے دیکھا کہ کیسے تقّیہ (نظریئہ ضررت)ہر زمانے میں کار آمد ہے ؟ کہنے لگے :کیسے ؟ میں نے کہا : ہم دونو ں نے پولیس سے چھوٹ بولا ۔ میں نے کہا میں دوستوں سے ملنے کے لئے آیا ہوں ، اور آپ نے کہا کہ میں علاج کہ لئے آیا ہوں ۔حالانکہ ہم دونوں کانفرنس میں شرکت کے لیے آئے ہیں ۔
وہ صاحب کچھ دیر مسکراتے رہے ۔ سمجھ گئے میں نے ان کا جھو ٹ سن لیا ہے ۔پھر کہنے لگے : اسلامی کانفرنسوں میں ہماوہ روحانی علاج نہیں ہوتا ؟ میں نے ہنس کر کہا :تو کیا ان کانفرنسوں میں ہماری اپنے دوستوں سے ملاقات نہیں ہوتی ؟
اب میں پھر اپنے موضو ع پر آتا ہوں ۔میں کہتا ہو ں کہ اہلِ سُنَّت کا کہنا غلط ہے کہ تَقّیہ نِفاق کی کوئی شکل ہے بلکہ بات اس کی اُلٹ ہے ، کیونکہ نِفاق کے معنیٰ ظاہر میں ایمان اور باطن میں کفر ۔اور تقّیہ کے معنیٰ ہیں ظاہرمیں کفر اور باطن میں ایمان ۔ان دونوں باتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔
نِفاق کے متعلق اللہ سُبْحانہ نے ارشاد فرمایا ہے وَاِذَالقوا الذین آمنوا قالوا آمنا و اذا خلوا الی شیاطینھم قالوا انا معکم انما نحن مستھزؤن۔
جب وہ مومنوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی مومن ہیں اور جب اپنے شیطانوں کے ساتھ تنہائی میں ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمھارے ساتھ ہیں ، ہم تو مذاق کر رہے تھے (سورئہ بقرہ ۔آیت ۱۴)
اِس کا مطلب ہوا :ایمان ظاہر +کفر باطن=نِفَاق ۔
تقّیہ کے بارے میں اللہ سُبْحانہنے کہا ہے :وَقَالَ رَجُلٌ مومن من آل فرعون یکتم ایمانہ۔ فرعون کی قوم میں سے ایک شخص مومن نے جو اپنا ایمان چھپائے ہو ئے تھا ،کہا ْ...؟
اِس کا مطلب ہوا : کُفرِ ظاہر ۔ایمان ِ باطن ۔ تقّیہ یہ مومن اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا جس کا علم سِوائے اللہ کے کسی کو نہیں تھا وہ فرعون اور دوسرے لوگوں کے سامنے یہی ظاہر کرتاتھا کہ وہ فرعون کے دین پر ہے اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر قرآن کریم میں تعریف کے انداز میں کیا ہے
اب قارئین با تمکین آئیے دیکھیں !خُود شیعہ تقّیہ کے بارے میں کیا کہتے ہیں تاکہ ان کے بارے میں جو غَلَطْ سلَط باتیں مشہور ہیں جو جُھوٹ بولا جاتا ہے اور طوفان اُٹھایا جاتا ہے ، اس سے دھوکا نہ کھانے پائیں ۔شیخ محمد رضا مظفّر اپنی کتاب عقائد الاِمامیہ میں لکھتے ہیں :
تقّیہ بعض موقعوں پر واجب ہے اور بعض مو قعوں پر واجب نہیں ہے اس کا دارو مدار اس پر ہے کہ ضررکا کتنا خوف ہے تقّیہ کے احکام فقہی کتابوں کے مختلف ابواب میں علماء نے لکھے ہیں ہر حالت میںتقّیہ واجب نہیں صرف بعض صورتوں میں تقّیہ کرنا جائز ہے
بعض صورتوں مین تو تقّیہ نہ کرنا واجب ہے ،مثلاً اس سورت میں جب کہ حق کا اِطہار ، دین کی مدد ، اسلام کی خدمت اور جہاد ہو ۔ایسے موقع پر جان ومال کی قربانی سے دریغ نہیں کیا جاتا ۔ بعض صورتوں میںتقّیہ حرام ہے یعنی ان صورتوں میں جب تقّیہ کا نتیجہ خونِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِ ِ ناحق ، باطل کا رواج یا دین میں بگاڑ ہو یا تقّیہ کے باعث مسلمانوں کا سخت نقصان ہو مسلمانوں میں گمراہی پھیلنے یا ظلم جَوْر کے فروغ پانے کا اندشہ ہو ۔
بہر حال شیعو کے نزدیک تقّیہ کا جو مطلب ہے وہ ایسانہیں کہ اس بنا پر شیعو ں کو تخریبی مقاصد کی خفیہ پار ٹی سمجھ لیا جائے ، جیساکہ شیعوں کے بعض وہ غیر محتاط دشمن چاہتے ہیں جو صیحح بات کی تکلیف گوارا نہیں کرتے ۔اہم غیر محتاط شیعوں سے بھی کہیں گے کہ۔
اقوالِِِِِِِِِِِِِِِِِِ غیر جو پئے اسلام ہیں مُضِر
اپنی زبان سے ان کی حکایت نہ کیجیے
اِسی طرح تقّیہ کے یہ بھی معنیٰ نہیںہیں کہ اس کی وجہ سے دین اور اس کے احکام ایساراز بن جائیں جسے شیعہ مزہب کو نہ ماننے والوں کے سامنے ظاہر نہ کیا جاسکے ۔ اور یہ ہو بھی کیسے سکتا ہے جبکہ شیعہ علماء کی تصانیف خُصُوْصًا ان کی فِقہ اِحکام عقائد اور علمِِ ِ کلام سے متعلق کتابیں مشرق ومغرب میں ہر جگہ اتنی تعداد میں پھیلی ہوئی ہیں کہ اس سے زیادہ تعداد کی کسی مزہب کے ماننے والوں سے توقع نہیں کی جاسکتی ۔
اب آپ خود دیکھ لیجیے کہ دشمنوں کے خیال کے بر خلاف یہاں نہ ِنفاق ہے نہ مکرو فریب ،نہ دھوکا ہے نہ جھُوٹ !
وما توفیقی الابااللہ علیہ توکلت والیہ انیب
محمد تیجانی سماوی