تو کیا قرآن پر جو نور کلام مبین اور تمام مخلوق کی ہدایت کے لئے حق تعالی کی واضح گفتگو ہے کوئی پردہ اور نقاب پڑا ہوا ہے۔جسے ہم ہٹانا چاہتے ہیں ؟ نہیں ایسا نہیں ہے۔
قرآن کے چہرے پر تو کوئی نقاب نہیں ہے یہ تو ہم جن کے چہرے پر سے نقاب ہٹانا چاہیے اور ہماری عقل و ہوش کی نگاہ سے پردہ اٹھنا چاہیے تاکہ ہم قرآن کے مفاہیم کو سمجھ سکیں اور اس کی روح کا ادراک کر سکیں۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ قرآن کا صرف ایک چہرہ نہیں ۔اس کا وہ چہرا جو سب کے لئے کھلا ہے وہ نور مبین ہے اور ہدایت خلق کی رمز ہے عمومی چہرا ہے ۔
رہا اس کا دوسرا پہلو تو اس کا ایک چہرا بلکہ کئی چہرے اور ہیں ۔ جو صرف غور و فکر کرنے والوں،حق کے پیاسوں،راستے کے متلاشیوں اور زیادہ علم کے طلب گاروں پر آشکار ہوتے ہیں ۔ اس میں سے ہر ایک کو اس کے اپنے ظرف ،خلوص اور کوشش سے حصہ ملتا ہے ۔
ان چہروں کو احادیث کی زبان میں” بطون قرآن “ کہتے ہیں ۔ چونکہ ہر شخص ان کی تجلی نہیں دیکھ پاتا بلکہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ ہر آنکھ انہیں دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتی لہذا تفسیر آنکھوں کو توانائی دیتی ہے اور پردوں کو ہٹاتی ہے اور ہمارے اندر دیکھنے کی اہلیت پیدا کرتی ہے ۔ جتنا کہ ہمارے لئے ممکن ہے۔
قرآن کے کئی چہرے ایسے ہیں جن سے زمانہ گزرنے اور انسانی لیاقت و استعداد میں اضافے اور مالیدگی سے پردہ اٹھتا ہے ۔ مکتب علی علیہ السلام کے ہونہار شاگرد ابن عباس اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
القرآن یفسرہ الزمان
زمانہ قرآن کی تفسیر کرتا ہے ۔
ان سب باتوں سے قطع نظر ایک مشہور حدیث ک ے مطابق :
القرآن یفسر بعضہ بعضاََ۔
قرآن خود اپنی تفسیر بیان کرتا ہے اور اس کی آیات ایک دوسرے کے چہرے سے پردہ اٹھاتی ہیں۔
قرآن کا نور اور کلام مبین ہونا اس با ت کے منافی نہیں ہے کہ یہ ایک اکیلا ہے اس طرح کہ دوسرے سے پیوستہ بھی ہے اور ایک ایسا مجموعہ ہے جو ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتا اور یہ سارے کا سارا نور اور کلام مبین ہے اگرچہ اس کی بعض آیات کچھ دیگر آیات کے چہرے سے پردہ اٹھاتی ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ قرآن کی تفسیر اپنے حقیقی معنی کے لحاظ سے خود پیغمبر کے زمانے سے اور آنحضرت کے پاکیزہ دل پر اس کی اولین آیات کے نازل ہونے سے شروع ہوئی اور پھر اس علم کے بزرگ اور عظیم لوگ اپنی سندوں کا سلسلہ پیغمبر کے شہر ِعلم کے در تک لے جاتے ہیں۔
تفسیر قرآن کے سلسلے میں اب تک سینکڑوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں جو مختلف زبانوں میں اور مختلف طرزوطریقہ کی ہیں۔ بعض ادبی ہیں اور بعض فلسفی،کچھ کی نوعیت اخلاقی ہے اور کچھ احادیث کی بنیاد پر لکھی گئیں ہیں۔ بعض تاریخ کے حوالے سے رقم کی گئیں اور بعض علوم جدیدہ کی اساس پر لکھی گئی ہیں ۔ اس طرح ہر کسی نے قرآن کو ان علوم کے زاویے سے دیکھا ہے جن میں وہ خود تخصص رکھتا ہے ۔
پھولوں سے لدے ہوئے اس باغ سے کسی نے دل انگیز اور شاعرانہ مناظر حاصل کئے، کسی نے علوم طبیعی کے استاد کی طرح برگ گل ، پھول ،شاخوں اور جڑوں کے اصول تلاش کرنے کی کوشش کی ہے ،کسی نے غذائی مواد سے استفادہ کیا ہے اور کسی نے دواؤں کے خواص سے ، کسی نے اسرار آفرینش سے یہ سب شگوفے اور رنگا رنگ گل چنے ہیں اور کوئی اس فکر میں ہے کہ کون سے گل سے بہترین عطر کشید کرے اسی طرح کوئی ایسا بھی ہے جس نے فقط شہد کی مکھی کی طرح گل چوسنے اور اس سے انگبین حاصل کرنے کی جستجوکی ہے۔
خلاصہ یہ کہ راہ تفسیر کے راہبوں میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں ایک مخصوص آئینہ تھا جس سے انہوں نے قرآن کی ان زیبائیوں اور اسرار کو منعکس کیا۔ لیکن یہ واضح ہے کہ یہ سب چیزیں باوجودیکہ قرآن کی تفسیریں ہیں ان میں سے کوئی بھی قرآن کی تفسیر نہیھ کیونکہ ان میں سے ہر ایک قرآن کے ایک رخ سے پردہ ہٹاتی ہے نہ کہ تمام چہروں سے اور اگر ان سب کو ایک جگہ جمع کر لیا جائے تو پھر بھی وہ قرآن کے چند چہروں کی نقاب کشائی ہوگی نہ کہ تمام چہروں کی۔
قرآن حق تعالی کا کلام ہے اور اس کے لامتناہی علم کی تراوش ہے اور اس کا کلام اس کے علم کا رنگ اور اس کا علم اس کی ذات کا رنگ رکھتا ہے ۔ اور وہ سب لا متناہی ہیں۔ اس بنا پر یہ توقع نہیں رکھنا چاہیےکہ نوع انسانی قرآن کے تمام چہروں کو دیکھ لے۔ کیونکہ دریا کو کوزے میں بند نہیں کیا جا سکتا ۔ تا ہم اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہماری فکر و نظر کا ظرف جس قدر وسیع ہوگا اتنا ہی زیادہ ہم اس بحر بیکراں کو اپنے اندر سما سکیںگے۔
اس لئے تمام علماء اور دانشوروں کا فرض ہے کہ وہ کسی زمانے میں بھی ناتھ پر ہاتھ رکھ کر نہ بیٹھ جائیں۔ قرآن مجید کے زیادہ سے زیادہ حقائق کے انکشاف کے لئے اپنی پے در پے مخلصانہ سعی و کوشش جاری رکھیں ۔ قدماء اور گذشتہ علماء (خداوند عالم کی رحمتیں ان کی ارواح پاک پر ہوتی رہیں) کے ارشادات سے فائدہ اٹھائیں لیکن انہی پر قناعت نہ کریںکیونکہ پیغمبر اکرم فرماتے ہیں : لا تحصی عجائبہ ولا تبلی غرائبہ
قرآن کی خوبیاں کبھی ختم نہیں ہوں گی اور اس کی عجیب و غریب نئی باتیں کبھی پرانی نہ ہوں گی ۔
تفسیر قرآن کے سلسلے میں یہ روش بہت زیادہ خطرناک ہے کہ انسان مکتب قرآن میں شاگردی اختیار کرنے کی بجائے اس عظیم آسمانی کتاب کے مقابلہ میں استاد بن بیٹھے یعنی قرآن سے استفادہ کرنے کی بجائے اس پر اپنے افکا ر کا بوجھ ڈال دے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ انسان اپنے ماحول ،تخصیص علمی،مخصوص مذہب اور اپنی ذاتی رائے کو قرآن کے نام پر اور قرآن کی صورت میں پیش کرنے لگے اور یوں قرآن ہمارا امام پیشوا ، رہبر، قاضی اور فیصلہ کرنے والا نہ رہے بلکہ الٹا وہ ہمارے اپنے نظریات کی مسند نشینی اور ہمارے اپنے افکار و نظریات کی جلوہ نمائی کا ذریعہ بن جائے۔
قرآن کی تفسیر کا یہ طریقہ بلکہ زیادہ صحیح الفاظ میں قرآن کے ذریعہ اپنے افکار کی تفسیر کا یہ ڈھنگ اگرچہ ایک گروہ میں رائج ہے جو کچھ بھی ہے خطرناک ہے اور ایک دردناک مصیبت ہے جس کا نتیجہ راہ حق کی طرف ہدایت کے حصول کی بجائے صراط مستقیم سے دوری اور غلطیوں اور شبہات کو پختہ کرنے والی بات ہے۔
قرآن سے اس طرح فائدہ اٹھانا تفسیر نہیں ہے بلکہ تحمیل ہے۔ ای سے فیصلہ لینا نہیں بلکہ اس کے اوپر حکم چلانا ہے ۔یہ ہدایت نہیں بلکہ ضلالت و گمراہی ہے۔ اس طرح تو ہر چیزدگرگوں ہو جاتی ہے۔
ہماری کوشش ہے کہ اس تفسیر میں ہم انشاء اللہ یہ روش اختیار نہ کریں اور واقعاََ قرآن کے سامنے دل و جان سے زانوئے تلمذ تہ کریں اور بس۔
ہر زمانے کی کچھ خصوصیات ، ضرورتیں اور تقاضے ہوتے ہیں جو زمانے کی بدلتی ہوئی کیفیت ، تازہ مسائل اور منشاء مشہود پر آنے والے نئے معانی و مفاہیم سے ابھرتے ہیں۔ اسی طرح ہر دور کی اپنی کچھ مشکلات اور پیچیدگیاں ہوتی ہیں اور یہ سب معاشرتی اور تہذیبی و تمدنی تبدیلیوں کا لازمہ ہوتا ہے ۔
کامیاب افراداور صاحبان توفیق وہ ہیں جو ان ضروریات اور تقاضوں کو سمجھ سکیں جنہیں ” عصری مسائل “ کہا جاتا ہے۔ لیکن وہ لوگ جو ان مسائل کے ادراک سے عاری ہیں یا ادراک تو رکھتے ہیں لیکن وہ خود کسی دوسرے ماحول اور زمانے کی پیداوار ہیں جس میں یہ مسائل نہ تھے اس لئے وہ سرد مہری اور لا پرواہی سے ان مسائل کے سامنے سے گذرجاتے ہیں ۔ وہ ان مسائل کو بے کار کاغذوں کی طرح ردی کی ٹوکری میں ڈال دیتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو پے در پے شکستوں کے لئے تیار رہنا چاہیے۔
ایسے افراد ہمیشہ زمانے کی وضع و کیفیت کا شکوہ کرتے رہتے ہیں ، زمین و آسمان کو برا کہتے ہیں اور گزرے ہوئے سنہرے اور خواب و خیال کے زمانے کی یاد میں غمزدہ ، افسردہ اور پر حسرت رہتے ہیں۔ ایسے لوگ روز بروز زیادہ بد ظن ، بد بیں اور مایوس ہوتے رہتے ہیں اور آخر کار معاشرے سے دوری اور گوشہ نشینی اختیار کر لیتے ہیں کیونکہ وہ زمانے کے تقاضوں اور مشکلات کو سمجھ نہیں پاتے یا وہ ایسا چاہتے ہی نہیں ۔ ایسے لوگ ایک تاریکی میں زندگی بسر کرتے ہیں اور چونکہ حوادث کے علل و اسباب اور ان کے نتائج کی تشخیص نہیں کر پاتے اس لئے ان کے مقابلہ میں گھبراتے ہوئے وحشت زدہ ، بے دماغ اور بغیرکسی منصوبہ بندی کے رہتے ہیں ایسے لوگ چونکہ تاریکی میں محو گردش ہوتے ہیں اس لئے ہر قدم پر ٹھوکر کھا تے ہیں اور کیا خوب کہا ہے سچے پیشوا نے :
جو شخص اپنے زمانے کے حالات و کوائف سے آگاہ ہے وہ اشتباہات او رغلطیوں سے بچار ہتا ہے
۱۔ مام صادق علیہ السلام سے ایک مشہور حدیث میں یہ مضمون یوں منقول ہے: العالم بزمانہ لا تحجم علیہ اللوابس۔
ہر زمانے کے علماء اور دانشوروں کے لئے یہ پیغام ہے کہ ان کا فریضہ ہے کہ وہ پوری چابکدستی سے ان مسائل، تقاضوں، احتیاجات اور روحانی کمزوری اور اجتماعی خالی نقاط کا ادراک کریں اور انہیں صحیح شکل و صورت میںپر کریں تاکہ وہ دوسرے امور سے پر نہ ہوجائیں کیونکہ ہماری زندگی کے محیط محال میں خلاء ممکن نہیں ہے۔
مایوس اور منفی فکر حضرات کے گمان کے برخلاف جن مسائل کو میں نے اپنی سمجھ کے مطابق واضح طور پر معلوم کیا ہے اور سمجھا ہے ان میں سے ایک نسل نوکی مفاہیم اسلام اور مسائل دینی جاننے کی پیاس ہے بلکہ یہ پیاس فقط سمجھنے کے لئے نہیں بلکہ انہیں چکھنے، چھونے اور آخر کار ان پر عمل کرنے کی ہے۔
ان مسائل نے نسل نوکی روح اور وجود کو بے قرار رکررکھا ہے لیکن یہ فطری امر ہے کہ یہ سب استفہام کی صورت میں ہے۔ ان خواہشات اور تقاضوں کا جواب دینے کے لئے پہلا قدم میراث علمی اور اسلامی تہذیب و تمدن کو عصر حاضرکی زبان میں ڈھالنا اور عالی مفاہیم کو موجودہ دور کی زبان میں موجودہ نسل کی روح، جان اور عقل میں منتقل کرنا ہے اور دوسرا قدم یہ ہے کہ اس زمانے کی مخصوص ضرورتوں اور تقاضوں کو اسلام کے اصولوں سے استنباط کرکے پورا کیاجائے۔
یہ تفسیر انہی دو اہداف و مقاصد کی بنیاد پر لکھی گئی ہے۔
یہ ایسا سوال ہے جو بارہا مختلف طبقوں خصوصا نوجوان طبقے کی طرف سے ہمیں کیا گیا ہے ۔ یہ وہ ہیں جو خلوص سے ملی ہوئی پیاس کے ساتھ قرآن کے صاف و شفاف چشمے کے جویا ہیںاور اس محفوظ آسمانی وحی سے سیراب ہونا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان سب کے سوال میں یہ جملہ پوشیدہ ہے کہ ہمیںایسی تفسیر چاہئے جو تقلید کے حوالے سے نہیں بلکہ تحقیق کے حوالے سے ہمیں عظمت قرآن سے روشناس کراسکے اور دورحاضر میں ہماری ضرورتوں ، دکھوں اور مشکلوں میں راہنمائی کرسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر طبقے کے لوگوں کے لئے مفید بھی ہو اور جس میں پیچیدہ علمی اصطلاحات اس کی صاف و شفاف راہوں اور شاہراوں میں ناہمواریاں پیدا نہ کریں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر چہ فارسی زبان میں آج ہمارے پاس کئی ایک تفاسیر موجود ہیں ۔ ا س میں شک نہیں کہ یہ وہ تفاسیر ہیں جو ہمارے قدماء بزرگوں کی میراث میں یا بعد میں عصر حاضر کے علماء نے انہیں تحریر کیا ہے اور کچھ ایسی ہیں جو چند صدیاں پہلے لکھی گئی تھیں اور ان کی مخصوص نثر علماء و ادباء سے مخصوص ہے۔
موجود تفاسیر میں بعض اس سطح پر ہیں کہ صرف خواص کے طبقے کا حصہ ہیں اور دیگر طبقات ان سے استفادہ نہیں کرسکتے اور بعض قرآن کے خاص گوشوں کو بیان کرتی ہیں۔ ان کی مثال ایک گلدستہ کی سی ہے جسے کسی تروتازہ باغ سے چنا گیا ہو جس میں باغ کی نشانیاں توہیں لیکن باغ نہیں ہے۔
اس طرح اس بار بار کے سوال کا کوئی ایسا جواب نہ مل سکا یا بہت کم ملا کہ جو قانع ہو، وجدان کو مطمئن کرے اور پیاسے متلاشی کی تشنگی روح کو سیراب کرسکے۔
اس پر ہم نے فیصلہ کیا کہ اس سوال کا جواب عمل سے دینا چاہئے کیونکہ اس وقت اس کا صرف زبانی جواب ممکن نہیں ہے لیکن مشکلات اور روز افزوں مشاغل کے ہوتے ہوئے اور اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ قرآن ایک ایسا بیکراںسمندرہے جس میں آسانی سے اور ساز و سامان، تیاری وقت اور کافی غور و فکر کے بغیر داخل نہیں ہوا جاسکتا اور یہ وہ بحر ناپیدا کنار ہے جس میں بہت سے لوگ غرق ہوئے اور ڈوب چکے ہیں۔ حسرت و اندوہ کے عالم میں اس دریا کے کنارے کھڑا میں اس کی امواج فروشاں کا نظارہ کررہا تھا کہ ایسے میں اچانک ایک بجلی سی فکر میں کوند گئی۔ امید کا دریچہ کھلا اور مسئلے کی راہ حل سمجھائی دینے لگی اور وہ تھی گروپ سسٹم میں کام کرنے کی سوچ اور پھر دس فاضل، مخلص، محقق، آگاہ اور باخبر نوجوان جو ”عشرہ کاملہ“ کے مصداق میں میرے رفیق راہ بن گئے۔ ان کی شبانہ روز پرخلوص کوششوں سے مختصر سی مدت میں یہ پوداثمر آور ہوگیا اور توقع سے بھی جلدی اس کی پہلی جلد چھپ گئی۔
اس بناء پر کہ کوئی نکتہ عزیز قارئین کے لئے مبہم نہ رہنے پائے ہم اپنے طریقہ کار کی بھی اجمالا تشریح کئے دیتے ہیں۔
پہلے آیات قرآنی مختلف، حصوں میں ان محترم علماء میں تقسیم کردی جاتی تھیں( ابتداء میں دودو افراد کے پانچ گروپ تھے)۔ ضروری ہدایات وراہنمائی کی روشنی میں وہ ان مختلف تفاسیر کا مطالعہ کرتے جو اس تفسیر کا منبع اور اصلی کتب ہیں جنہیں اس فن کے عظیم محققین نے سپرد قلم کیا ہے۔ چاہے وہ محققین سنی ہوں یا شیعہ سب کا مطالعہ کیا جاتا ۔ ہمارے زیر نظر رہنے والی تفاسیر میں سے بعض یہ ہیں:
تفسیر مجمع البیان ، تالیف شیخ المفسرین محقق عالی قدر جناب طبرسی
تفسیر انوار التنزیل ، تالیف قاضی بیضاوی۔
تفسیر الدر منثور ، تالیف جلال الدین سیوطی۔
تفسیر برہان ، تالیف محدث بحرانی۔
تفسیر المیزان ، تالیف استاد علامہ طباطبائی۔
تفسیر المنار ، محمد عبدہ مصری۔
تفسیر فی ظلال ، تالیف مصنف معروف سید قطب
اور تفسیر مراغی ، تالیف احمد مصطفی مراغی۔
اس کے بعد وہ معلومات اور ماحصل جو موجودہ زمانے کے احتیاجات اور تقاضوں پر منطبق ہوتے انہیں رشتہ تحریر میں لایا جاتا۔بعدازاں اس گروپ کی اجتماعی نشستیں ہفتے کے مختلف دنوں میں منعقد ہوتیں اور یہ تحریریں پڑھی جاتیں اور ان کی اصلاح کی جاتی۔ ان نشستوں میں ہی قرآن کے بارے میں جن نئی معلومات کا اضافہ ضروری ہوتا وہ کیاجاتا۔ پھر اصلاح شدہ تحریروں کو صاف کرکے لکھاجاتا۔ صاف کرکے لکھنے کے بعد ان سب تحریروں کو ان میں سے چندمنتخب علماء پھر سے پڑھتے اور انہیں منضبط کرتے۔ آخری شکل دینے کے لئے آخری میں میں خود پورے اطمینان سے اس کا مطالعہ کرتا اور بعض اوقات اسی حالت میں محسوس ہوتا کہ اس میں چند پہلوؤں کامزید اضافہ کیاجانا چاہئے اور پھر یہ کام انجام دیا جاتا۔ ضمنی طور پر آیات کارواں ترجمہ بھی میں اسی موقع پر کردیتاتھا۔
عام مطالب(آیات کے ذیلی ترجمہ اور بعض پہلوؤں کے علاوہ جن کا یہ حقیر اضافہ کرتا)چونکہ ان محترم حضرات کے قلم سے ہوتے تھے اورفطری طور پر مختلف ہوتے تھے اس لئے میں ان تحریروں کو ہم آہنگ کرنے کے لئے بھی ضروری کاوش انجام دیتا تھا اور ان تمام زحمات و مشقات کا ثمر یہ کتاب ہے جو عزیز قاری کی نظر سے گزر رہی ہے۔ امید ہے کہ یہ تمام لوگوں کے لئے عمدہ، مفید اور سود مند ثابت ہوگی۔